ہم خدا کے ہی ہیں۔۔۔۔

مروہ خان میرانی

کبھی آپ نے اس جملے کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے "اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیہِ رَاجِع±ونَ" ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں۔ آج ہم اس جملے کو ایک نئے انداز سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ عموما ہم یہ جملہ تب استعمال کرتے ہیں جب ہم کسی کی وفات کی خبر سنتے ہیں۔ اور اگر اس پہ غور کیا جائے تو یہ خوبصورت الفاظ ہمیں محبت اور تحفظ کا احساس دلاتے ہیں جس کو ہم نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ یہ الفاظ نہ صرف آپ کو خوشی اور اطمینان عطا کرتے ہیں بلکہ آپ کو پریشانی اور خوف سے بھی نجات دلاتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم اس جملے کے پہلے حصے کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ "ہم خدا کے ہیں"۔ یعنی ہم خدا تعالیٰ سے belong کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے " منسلک ہونا یا پیدائش سے پابند ہونا "- اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اس بات پہ یقین دہانی کرا رہا ہے کہ ہم اس کے ہیں۔ کسی ایسی ہستی کا ہونا جو کہ الروف مہربان ، الولی دوست، الغفور معاف کرنے والا، اللطیف نرمی کرنے والا، الرحیم رحم کرنے والا، الودود محبت کرنے والا ہو ، تو ایسی روحیں خوش قسمت ترین ہیں جو اپنے اپ کو اس ذات سے منسلک سمجھتے ہیں اور ہوتی ہیں۔ یہ جملہ آپ کے لیے مستقل یاد دہانی کراتا ہے جو کہ سکون قلب کا باعث بنتی ہے۔ نفسیاتی طور پہ آپ سکونت میں رہتے ہیں۔ یہ پڑھنے سے آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ ایک ہستی ہے جو کہ یہ کہہ رہی ہے کہ وہ آپ کے پیچھے ہے۔ آپ کو یہ حوصلہ ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہر وقت ہر پل آپ کے ساتھ ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ آپ کا دماغ آپ کو مستقل پیغام پہنچائیں گا کہ آپ کا خدا ہے جو آپ کو محفوظ کر رہا ہے آپ کا محافظ ہے اور آپ اس کی حفاظت کے حصار میں ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی آپ کو یہ بات بتا رہا ہے کہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپ کو اور آپ کی ضرورتوں کو دیکھے گا اور آپ کو رزق عطا فرمائے گا جیسے کہ یہ اس کا نام ہے الرزاق رزق دینے والا۔
" بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔"۔ (3: 37)
ہر اس شخص کی پریشانی و مصیبت یہ سوچ کے قدرتی طریقے سے ختم ہو جاتی ہے کہ اللہ رب العزت موجود ہے جو اس کو مصیبت سے باہر نکالے گا اور گرنے نہیں دے گا۔ یہ سوچ اس کے سکون کا باعث بنے گی کہ وہ اپنے معاملات خود نہیں سنبھالے ہوئے بلکہ کوئی اور ذات ہے جو اس کے معاملات سنبھالتا ہے۔ یہ حدیث قدسی آپ کو اللہ رب العزت سے مزید محبت و احترام حاصل کرنے کا باعث بنے گی۔ 
" ”جس نے کسی ولی کو اَذِیَّت دی، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اوربندہ میرا ق±رب سب سے زِیادہ فرائض کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور نَوافل کے ذریعے م±سلسل قرب حاصل کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ میں اس سے مَحَبَّت کرنے لگتا ہوں۔جب میں بندے کو محبوب بنا لیتا ہوں ،تومیں اس کے کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتاہے۔ اس کی ا?نکھ بن جاتا ہوں ،جس سے وہ دیکھتا ہے۔اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاو¿ں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔ پھروہ مجھ سے سوال کرے، تو میں اسے عطا کرتا ہوں، میری پناہ چاہے، تومیں اسے پناہ دیتا ہوں۔“ (بخاری) 
وسوسوں پریشانی اور مصیبت کی حالت میں یہ جملہ پڑھنے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے فوری مدد آسمانوں کی طرف سے نازل ہوتی ہے جو آپ کے اندر سکون اتار دیتی ہے۔
اب اگر ہم اس جملے کا دوسرا حصہ دیکھیں کہ اسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک مسافر کی بے سکونی کے لیے فرمایا کہ "سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے' آدمی کو کھانے پینے اور سونے ( ہر ایک چیز ) سے روک دیتا ہے' اس لیے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کر چکے تو فوراً گھر واپس آ جائے"۔(بخاری)۔ کیونکہ مسافر اپنے گھر اور ماحول سے دور رہتا ہے تو اس لیے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر جلد سے جلد لوٹے۔ جب ہم اپنے آپ کو یہ بات یاد کراتے ہیں کہ ہم نے پلٹ کے واپس اپنے رب کی طرف جانا ہے تو ہم زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور کم سے کم گناہ کرنے پہ معمور ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ایک بار پھر ہمیں یہ بات یاد کراتا ہے کہ ہمارا ایک گھر ہے نہ ختم ہونے والا جنت میں جہاں ہم ہمیشہ سکون و عافیت میں رہیں گے انشاء اللہ 
جب آپ کو اس بات کا احساس ہو کہ آپ کا کوئی منتظر ہے اور آپ سے محبت کرنے والا ہے جو کہ آپ کی واپسی کے انتظار میں ہے تو آپ لوٹنے کی بھی جلدی کرتے ہیں۔ اسی لیے اس دنیا میں ہماری روح بے چین ہے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ ہمیں سکون صرف اس وقت حاصل ہوگا جب ہم پلٹ کے اپنے محبوب رب تعالی کی طرف لوٹ جائیں گے جو ہمارا منتظر ہے۔
 "حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا: "دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی اجنبی ہو یا راستے پر چلنے والے ہو۔" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے : شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح ہوجائے تو شام کا انتظار نہ کرو۔ تندرستی کی حالت میں وہ عمل کروجو بیماری کے دنوں میں کام آئیں اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت خیال کرو۔"
 صحیحالبخاری، حدیث:۴۱
ایک مسافر کسی بزرگ کے کمرے میں داخل ہوا اور دیکھا کہ ان کا کمرہ بالکل سامان سے خالی تھا صرف ایک کالین تھا اور ایک دو استعمال کی چیزیں اور۔ مسافر نے بزرگ سے سوال کیا کہ آپ 
نے کوئی سامان نہیں رکھا ہوا کمرے میں؟ بزرگ نے فرمایا کہ تمہارا سامان کدھر ہے؟ مسافر نے جواب دیا کہ میں تو مسافر ہوں سفر کر رہا ہوں۔ بزرگ نے جواب دیا میں بھی اس دنیا میں مسافر ہی ہوں۔
آج سمجھ میں آتا ہے کہ صحابہ کرام کیوں اتنا زار و قطار بےحد نیکیاں کرنے کے باوجود رب تعالی کے آگے روتے تھے کیونکہ ان کو اس حقیقت سے آشنائی حاصل تھی کہ انہوں نے کس کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ اللہ اکبر!

ای پیپر دی نیشن