نجیب الغفور خان (جموں و کشمیر لبریشن سیل)
liberationcellajk@yahoo.com
27اکتوبر1947ء جموں و کشمیر کی تاریخ کاوہ سیاہ ترین دن ہے جب بھارت نے پہلی بار مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوجیں اتار کر بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کی امنگوں کے برعکس جبر و تشدد اور دہشت گردی کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کیا تھا، اس دن سے معصوم کشمیری عوام مسلسل بھارتی مظالم کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ خطہ جنت نظیر تب سے مسلسل کشیدگی اور کشمکش کا شکار ہے۔27اکتوبر1947ءکو جموں و کشمیرمیں بھارتی افواج کے داخل ہوتے ہی کشمیری عوام کی مشکلات کا آغاز ہو گیا تھا، اور پھر 5 اگست 2019ءکو مودی سرکار نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم کر دیا تھا جس سے ا±ن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔27 اکتوبر یوم سیاہ کے موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیرچوہدری انوار الحق کی خصوصی ہدایت پر بھارتی مظالم دنیا کے سامنے لانے اور عالمی برادری کو بھارت کا اصل چہرہ دکھانے کے لئے جموں و کشمیر لبریشن سیل نے خصوصی پروگرامات ترتیب دئیے ہیں، اس سلسلہ میں 27اکتوبر کو جموں و کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام مظفرآباد میں ایک بڑی احتجاجی ریلی /جلسہ کا انعقاد کیاجائے گا۔ ریلی میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان،آل پارٹیز حریت کانفرنس کے راہنماو¿ں سمیت وزراءحکومت طلباء،سیاسی سماجی،مذہبی و تجارتی تنظیموں کے نمائندگا ن،خواتین، طلباء صحافیوں،وکلاءاور سول سوسائٹی کثیر تعداد میں شریک ہوگی، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی خصوصی ڈاکیومنٹریز بھی دکھائی جائیں گی۔ اسلام آباد میں جموں و کشمیر لبریشن سیل کشمیر سنٹر راولپنڈی اور آل پارٹیزحریت کانفرنس کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی ہوگی اور اسی مناسبت سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد (کشمیر کمیٹی) کے اشتراک سے گول میز کانفرنس کا انعقاد بھی کیاجائے گا۔جس میں وفاقی وزرائ، حریت قائدین، سینئر میڈیا پرسنز کے علاوہ یونیورسٹیز سٹوڈنٹس شریک ہوں گے۔، جبکہ یوم سیاہ کی مناسبت سے دستخطی مہم کا انعقاد بھی کیاجا رہا ہے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر لبریشن سیل نے خصوصی طور پر سوشل میڈیا کیمپینز شروع کی ہیں، جن کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کودنیا کے سامنے لایا جا رہا ہے۔جبکہ کشمیر سنٹرزکے زیر اہتمام راولاکوٹ،لاہور،کراچی،میرپور اور آزاد کشمیر کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں ہوں گی۔کشمیر کلچرل اکیڈمی کے زیر اہتمام مزاحمتی مشاعرے کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔ آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں عوامی اجتماعات، ریلیاں، واکس اور احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔بھارت ظلم و بربریت سے دراصل کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی آواز کو دبانا چاہتا ہے اور انہیں ان کے اس بنیادی حق سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ جس کے لئے وہ کشمیریوں پر طاقت کا بے جا استعمال کر رہا ہے۔بھارت کے اس رویے پر انسانی حقوق کے علمبرداروں کو چاہیے کہ وہ اس جانب اپنی توجہ مبذول کریں اور تعصبانہ رویہ ختم کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق" حق خود ارادیت" دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بھارت پر دباو¿ ڈالیں کہ وہ کشمیری عوام پر مظالم بند کرکے وہاں پر استصواب رائے کرائے جس کا وعدہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی کیا گیا ہے۔ 27اکتوبر کو بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کی پیش کردہ جعلی دستاویز الحاق کو جواز بنا کر کشمیر میں بھی اپنی فوج اتار دی۔حالانکہ وائسرائے ہند لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے مہاراجہ کو یہ لکھا تھا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کا فیصلہ کرتے وقت کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ان سے مشورہ کرے اور ریفرنڈم کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کا فیصلہ کرے۔ اکتوبر 1947 کو برطانوی وزیراعظم کے نام ایک ٹیلی گرام میں جواہر لال نہرو نے لکھا تھا کہ، ’میں یہ بات واضع کرنا پسند کروں گا کہ ہنگامی حالات میں کشمیر کی مدد کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس پر اثر ڈالا جائے،کہ وہ بھارت میں شامل ہو، ہمارا نقطہ± نظر جس کا ہم کئی بار اعلان کر چکے ہیں یہ ہے کہ کسی متنازعہ علاقے کی شمولیت کا مسئلہ عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہو، ہم اس نقطہءنظر کے پابند ہیں۔ ان تمام یقین دہانیوں اور وعدوں کے باوجود بھارت آج تک اپنے وعدوں سے انحراف کر تا رہا،اور بالآخر پا کستان اور بھارت کے مابین اس مسئلہ پر جنگ چھڑ گئی،جس کے نتیجے میں بھارت خود اس مسئلہ کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا،جہاں پر طویل بحث و تمحیص کے بعد اقوامِ متحدہ نے اپنی قراردادوں میں کشمیر پر رائے شماری کا مطالبہ کیا۔ 13 اگست 1948 اور 5 جنوری1949کی قراردادوں میں اقوامِ متحدہ نے مسئلہ کشمیر کو تصفیہ طلب قراردے کر بھارت اور پاکستان دونوں پر زور دیا کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے قراردادوں پر عمل درآمد کریں۔5 جنوری کی قرارداد میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی نمائندگی ان الفاظ میں کی گئی ہے۔"ریاست جموں و کشمیر کی پاکستان یا بھارت میں شمولیت کے سوال کا فیصلہ جمہوری طریقے پر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے کیا جائے"۔5 نومبر1947 کو آل انڈیا ریڈیو سے خطاب، پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام ٹیلی گرام، 25 نومبر1947 کو برطانوی وزیراعظم کے نام ٹیلی گرام اور 11 ستمبر 1951 کواقوام متحدہ کے نمائندہ برائے پاک و ہند کے نام خط میں پنڈت جواہر لال نہرو نے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کیا بلکہ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کروانے کا اظہار بھی کیا، اس کے بعد بھی بھارتی حکمران مختلف معاہدوں اور یاداشتوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی یقین دہانیاں کرواتے رہے، مگر یہ بھارت کی مکارانہ چال تھی جس کے ذریعے وہ عالمی اداروں کو بیوقوف بناتا رہا تاکہ کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھ سکے آج اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے بدمعاش بھارتی حکمران تیار ہیں نہ ہی سامراجی عزائم اور ایجنڈے والا امریکہ حتیٰ کہ عالمی برادری بھی اپنے مفادات کی سرحدوں سے آگے بڑھ کر دیکھنے کیلئے آمادہ نہیں ہے جبکہ اقوام متحدہ جس کی تشکیل دوسری جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کی جگہ اس لئے عمل میں لائی گئی تھی کہ وہ اپنے رکن ممالک کے درمیان پائے جانے والے باہمی تنازعات کو طے کرنے کیلئے ٹھوس اور موثر جدوجہد کریگی۔ وہ بوجوہ اپنے آپ کو امریکی و یورپی مفادات کا اس قدرگرویدہ بنا چکی ہے کہ اس کی جانب سے کسی آزادانہ کردار کی توقعات بری طرح مجروح ہورہی ہیں۔ اقوام متحدہ خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو حل کرنے میں جس بری طریقے سے ناکام ہوئی ہے اس کی وجہ سے کئی ممالک نے تو ایک نئی اقوام متحدہ کی تشکیل کیلئے آوازیں بلند کرنا شروع کردی ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی 10 لاکھ سے زائد فوج اور سیکورٹی فورسز کے ذریعے قتل و غارت کا جو بازار گرم کررکھا ہے اس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کردیئے گئے ہیں اور خود اقوام متحدہ یہ تسلیم کرچکا ہے کہ کہ ”مقبوضہ وادی میں آئے دن ماورائے عدالت قتل اور گرفتاریوں کا سلسلہ انسانی حقوق کی اتنی واضح خلاف ورزی ہے کہ اس پر کسی طریقے سے پردہ ڈالنا ممکن نہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو کہ ایک طویل خاموشی کے بعد احسن اقدام تھا۔اب اقوام متحدہ سمیت عالمی برداری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس رپورٹ کی روشنی میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کیخلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کا وعدہ پورا کریں۔ اگر امریکہ اور عالمی برادری واقعی جنوبی ایشیاءمیں مستقل اور پائیدار امن کے خواہشمند ہیں تو انہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان ان بنیادی تنازعات کے تصفیہ کیلئے بھی ٹھوس اور بامعنی کوششیں کرنی چاہیے۔ مسئلہ کشمیر سب سے پرانا اور تصفیہ طلب تنازعات میں سرفہرست ہے اس لئے امریکہ اور اقوام متحدہ کو اس کے منصفانہ حل کیلئے بھی خصوصی جدوجہد کرنی چاہئے۔