جمع تفریق۔۔  خیر ھو آ پ کی

 ناصر نقوی

قدرت کا اصول ہے کہ ،،حاصل کو تقسیم کرتے رہو ،عطا خود بخود ضرب ہوتی رہے گی، مطلب اللہ سے آ سانیاں مانگنے والو۔۔ خلق خدا کے لیے آ سانیوں کا سبب بنو، رحمتیں تمہارا مقدر بن جائیں گی اور جس پر قدرت کی رحمت ہو جائے زحمت اس سے دور بھاگ جاتی ہے حسد، تکبر ،غرور مالک کائنات کو پسند ہی نہیں، اس نے جب حضرت آ دم کو خلق کیا اور فیصلہ کیا کہ فرشتے سجدہ کریں تو برگزیدہ فرشتے نے تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت آ دم سے حسد کیا کہ،، یہ مٹی کا پتلا اور میں اسے کیوں سجدہ کروں ،،میں تو اس سے افضل ہوں اور پھر حکم عدولی پر سزا وار ٹھہرا لیکن اس مغرور نے مکالمہ کیا کہ،، اسے زمین پر نہ بھیج یہ فساد برپا کرے گا ،،مالک نے اس آ دم اور آ دم زادوں کو عقل سلیم دے کر اشرف المخلوقات بنا دیا اور عبادت گزار فرشتہ شیطان بن کر رحمان کے مد مقابل کھڑا ہو گیا بلکہ اس نے زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے دعوی کیا کہ میں اس ،،مٹی کے پتلے ،،کو بہکاو¿ں گا یہ تیرا نہیں رہے گا لازوال بادشاہ نے تا قیامت زندگی کی نوید دیتے ہوئے کہا ،،میرے بندے تیرے بہکاوے میں نہیں آ ئیں گے بلکہ میں ان کے حوالے سے ہی پہچانا جاو¿ں گا ،،بس جب سے اب تک یہ کورس معاشرے میں چل رہے ہیں اللہ شہ رگ، سے قریب پھر بھی شیطان موجود، ہم اگر اپنے گرد و نوا ح کا جائزہ لیں تو بڑی آ سانی سے رحمانی اور شیطانی قوتیں ہر جگہ ہر لمحے دکھائی دیں گی پھر بھی اولاد آ دم شیطان کے بہکاوے میں اس لیے آ جاتی ہے کہ اللہ تعالی تو مہربان، معاف کرنے والا ہے اور یہ خاصیت شیطان میں نہیں ،اللہ کے وہ بندے قابل تعریف ہیں جو آ سانیاں بانٹنے کا وسیلہ بنتے ہیں ان آ سانیوں کے لیے مال و دولت کی ضرورت نہیں، اچھا اخلاق، مسکراتا چہرہ، چھوٹے بڑوں کی عزت و تکریم اور حسب توفیق معاونت و مشاورت بھی ہو سکتی ہے اگر یہ سب کچھ صدقہ جاریہ سمجھ کر صرف اپنے رب کی خوشنودی کے لیے کیا جائے تو کٹھن راستے بھی آ سان ہو جاتے ہیں ہمارا دوست عابد کشمیری بہت زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اس راز سے آ شنا تھا کہ ،،کربھلا ، ہو بھلا،، اسی لیے کبھی کسی کے لیے شر نہیں بنا بلکہ ہر خاص و عام کی خیر مانگی، اسنے زندگی کے نشیب و فراز دیکھے، محکمہ ریلوے میں کلر کی اور پہلی سواری سائیکل تھی لیکن اس کا مسکراتا چہرہ اپنے بھولے انداز میں جب کہتا،، خیر ھو آ پ کی،، تو مایوسی میں ڈوبے معاشرے اور اس میں بسنے والوں کو زندگی کا نیا آ سرا مل جاتا تھا امجد اسلام امجد کے ٹی وی ڈرامے،، سمندر،، میں اس نے خیر بانٹنے کے عمل کو عملی جامہ پہنایا اور جب سے اب تک،، خیر ہو آ پ کی،، اس کا تکیہ کلام بنا جو اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ہر کسی کی زبان پر ہے نظام قدرت میں اسے دنیاوی زندگی 74 سال ملی لیکن گلو بادشاہ عابد کشمیری کی بادشاہت ختم ہونے کے باوجود اس کی زبان سے نکلی یہ دعا،، خیر ھو آ پ کی،، سینہ بہ سینہ آ ئندہ نسلوں تک چلتی رہے گی اسی خیر کے عمل سے اسے کامیابیاں ملیں، چوک نا خدا وسن پورہ لاہور سے نیویارک تک کا سفر کیا، دنیا گھومی اور مملکت پاکستان کا نام روشن کیا، اپنے اپ کو خالصتا پاکستانی ثابت کیا ریڈیو ،ٹی وی، فلم اور سٹیج کے حوالے سے جانا پہچانا عابد کشمیری بچوں کے مستقبل کے لیے امریکہ چلا تو گیا تھا لیکن وہ وطن کی محبت میں بہانے بہانے سے سال میں دو ایک مرتبہ پاکستان ضرور آ تا تھا اس مرتبہ آ یا تو ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں وصی شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ لوگ پوچھتے ہیں،، میری صحت اور ھشاش بشاش چہرے کا راز کیا ہے؟ اس کا جواب تھا میں صرف اپنی نہیں ہر کسی کی خیر مانگتا ہوں ,مالک کائنات کو یہ ادا پسند آ گئی اور میں دوسروں سے منفرد ہو گیا،، اللہ مہربان تو بندہ پہلوان ،،میں نے کہا ،،کس کو کہہ رہے ہو؟ بات سمجھ میں آ گئی،، تو لوگوں کو میری بات ایسی سمجھ آ ئی کہ انہوں نے محبت کے سارے دروازے میرے لیے کھول دیے پاکستان کی تاریخ میں 25 کروڑ کی آ بادی میں ٹرکوں کے پیچھے صدر محمد ایوب خان اور گلوکار عیسی خیلوی کی تصاویر نظر آ تی ہیں لیکن میرا تکیہ کلام ،،خیر ہو آ پ کی ان دونوں سے بھی زیادہ ٹرکوں، بسوں اور گاڑیوں پر لکھا ملتا ہے یہ کرم ہے اللہ پاک کا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے 
 عابد کشمیری المعروف گلو بادشاہ ایک ہی تھا اس نے اپنے شوق ،محنت اور خدا دا صلاحیتوں سے فنون لطیفہ کے تمام اہم شعبوں ریڈیو، ٹی وی، فلم اور سٹیج پر نہ صرف بہترین پرفارمنس دی بلکہ بڑے بڑے اداکاروں کی موجودگی میں ایسا نام کمایا جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں، وہ اپنی شوخی، لاہوری سٹائل اور برجستہ جملوں سے لوگوں کو ہساتا بھی رہا اور معاشرتی برائیوں کی نشاندہی بھی کرتا رہا ،موت کا ایک روز مقرر ہے اس لیے حکم ربی سے،، جدھر سے آ یا تھا ادھر ہی واپس چلا گیا،، لیکن سات دہائیوں سے زیادہ خوشیاں بانٹنے، مسکراہٹیں بکھیرنے اور غمزدہ لوگوں کو ان کے غم بھلانے والا جو نشان چھوڑ گیا وہ بہت قیمتی ہے اسے برسوں فراموش نہیں کیا جا سکے گا ابھی چند روز پہلے وہ وصی شاہ اور اس کے ہمنواو¿ں کو اپنی داستان حیات، کارنامے اور صحت کا راز بتاتے ہوئے برجستہ جملوں سے مسکراہٹیں بکھیر رہا تھا اور آ ج وہ منوں مٹی تلے ابدی نیند سو رہا ہے اس کے بچھڑنے کا غم پاکستان میں ہی نہیں، پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو اور پنجابی کے قدردان موجود ہیں وہاں وہاں پایا جاتا ہے یوں تو اچھی عمر پائی لیکن ایسا لگتا ہے کہ جلدی چلا گیا ابھی اسے اور جینا چاہیے تھا ،مصلحت خداوندی ایک پوشیدہ راز ہے اسے ہم آ پ یا کوئی اور ، کیسے جان سکتا ہے زندگی موت تو رب کائنات کا معاملہ ہے اس میں کسی کا عمل دخل ہرگز نہیں، بس اسی بات سے دل کو حوصلہ ملتا ہے ورنہ غم تو بڑا ہے ،خاص طور پر اہل خانہ کے لیے گھر کا سربراہ دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ اپنی نیلی آ نکھوں والی بیگم کو بھی سوگوار کر گیا، کمال شخص تھا اللہ اس کی کوتاہیوں اور لرزشوں کو درگزر فرمائے، درجات بلند کرے، جوار رحمت میں جگہ دے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ایک باپ ،، سورج،، کی مانند ہوتا ہے اس کی موجودگی میں تپش تو محسوس ہوتی ہے لیکن اس کے غروب ہونے پر چار سو اندھیرا ہی اندھیرا چھا جاتا ہے ،معاشرے میں شر پسندوں کی کمی نہیں، لیکن خیر بانٹنے والا ایک کم ہو گیا اب یہ فریضہ ہم سب کو ادا کرنا ہوگا,, خیر ھو آ پ کی“

ای پیپر دی نیشن