قلمی چغلیاں ۔ شفقت رانا
برطانیہ میں چودہ سال بعد لیبر پارٹی نے کنزرویٹو کی حکومت کو شکست فاش دی اور دو تہائی اکثریت سے اپنی حکومت قائم کرتے ہوئے ”کیئر اسٹارمر“ کو وزیر اعظم منتخب کر لیا۔اِ ن بدلتے حالات میں مقامی جماعت ای ڈی ایل کو نئی حکومت ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی،دوسری طرف 29جولائی کو ایک 17سالہ نوجوان نے مقامی سکول میں بچوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 3بچے مارے گئے اور کچھ زخمی ہوئے، یہاں تک خبر بالکل درست تھی مگر کچھ شر پسند افراد نے اِس خبر کو پہلے یوں شائع کیا کہ قاتل مسلمان ہے اور ای ڈی ایل (انگلش ڈیفنس لیگ) نے اِسی عنوان کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں پر حملے اور برطانیہ میں پر تشدد مظاہرے شروع کر دیئے۔ مسلمان خواتین کے برقعے اور نقاب نوچے گئے، مسلم نوجوانوں پر اٹیک ہوئے اور دکانات سمیت ان کے مختلف کاروبار متاثر ہوئے۔برطانیہ میں قانون کے مطابق 18سال سے کم عمر مجرم کا نام اور قومیت ظاہر نہیں کی جا سکتی لہذا اس مجرم کو مسلمان ہونے کا الزام دے کر ہنگاموں کو ہوا دی گئی۔ مقامی انتظامیہ نے عدالت سے اجازت لے کر عوام والناس کو مجرم کا نام اور اس کا مذہب بتا دیا جس کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہنگامے رک جاتے لیکن انہی شرپسندوں نے جب دیکھا کہ مجرم مسلمان نہیں تو انہوں نے نئی منطق کو جنم دیا اور یہ کہہ کر ہنگامے تیز کر دیئے کہ وہ ایک اسائلم اسیکر کا بیٹا ہے اور اسائلم اسیکرز حکومتی اداروں کی طرف سے جن ہوٹلز، گیسٹ ہاوسز یا پرائیویٹ مکانات میں مقیم رکھے گئے تھے ان کا جلاو¿ گھیراو¿ شروع کر دیا۔ہنگاموں کا یہ سلسلہ 30جولائی کو شروع ہوکر 5اگست تک جاری رہا جس کی پاداش میں برطانیہ کی معیشت کو بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا۔چونکہ لیبر پارٹی کی حکومت دو تہائی اکثریت رکھتی تھی اِس لئے انہیں کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی سے ہنگامے کرنے والوں کے خلاف قانون بنانے میں کسی قسم کے مشورے کی ضرورت پیش نہیں آئی، ہنگامے کرنے کو دہشت گردی ایکٹ میں پکڑا گیا، فوری عدلتوں میں فیصلہ ہوا سزائیں سنائی گئیں اور اِس بے بنیاد خبر کو سوشل میڈیا پر اجاگر کرنے میں ایک پاکستانی کو برطانوی سیکیورٹی اداروں نے پاکستان کے شہر لاہور سے گرفتار کیا۔اب ایسا ہی ایک واقعہ ایسی ہی ایک بے بنیاد خبر پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی اور پاکستان جو پہلے ہی قرضوں، لا قانونیت، مہنگائی اور معیشت کی بگڑتی ہوئی چکی میں پس رہا تھا وہاں اِس خبر کی وجہ سے سکولوں اور کالجز کے بچے سڑکوں پر نکل آئے اور ہنگامے شروع کر دیئے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت چونکہ دو تہائی اکثریت سے قائم نہیں ہوئی بلکہ یہ حکومت مختلف جماعتوں کے اتحاد سے وجود میں آئی ہے اِس لئے موجودہ حکومت سوائے سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کے فی الفور کوئی قانون مرتب نہ کر سکی جو ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو روک سکے۔ویسے بھی حکومت نئی آئینی ترامیم کی منظوری میں مصروف تھی، تاکہ موجودہ چیف جسٹس کو مزید قائم رہنے دیا جا سکے اور نئے چیف جسٹس کے لئے ایک نئی کمیٹی بنائی جائے جس کی مرضی اور ووٹنگ سے ہی آئندہ نیا چیف جسٹس مقرر ہو سکے، حکومت اپنی اِس مصروفیت میں کامیاب رہی اور پی ٹی آئی کے احتجاج کے با وجود 26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی۔حکومتی ادارے مقامی کالج میں ایک پندرہ سالہ نوجوان لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں، اِس بے بنیاد اور جھوٹی خبر کو نمایاں کرنے اور سوشل میڈیا پر اجاگر کرنے کی پاداش میں سیکیورٹی اداروں نے کراچی سے ایک”سارہ خان“ نامی خاتون کو گرفتار کر لیا ہے جس نے اپنی ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ اس نے اس خبر کو ”ویوز“ لینے کے لئے استعمال کیا تھا، تفتیشی افسران سارہ خان نے مزید انکوائری بھی کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کے مقامی کالج میں ایسا کوئی واقع پیش نہیں آیا تو ہنگامے کرنے والوں کو کس نے اکسایا؟ سٹوڈنٹس کو باہر سڑکوں پر کون لایا؟ ہنگامے کرنے، توڑ پھوڑ کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کا ٹارگٹ کس نے دیا؟ کیا ایسا سب کچھ کرنے والے گرفتار ہوں گے؟ اور اگر یہ واقعہ رونما ہوا ہے تو اِس کا تدارک کون کرے گا؟ ایسے حالات کب معرض وجود میں آئیں گے کہ ایسے واقعات جنم لینا بند ہو جائیں؟ برطانیہ کی معیشت تو طاقتور تھی وہ ہنگاموں کے نقصانات کو برداشت کر گئی مگر پاکستان کی معیشت بہت کمزور ہے وہ ایسے واقعات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں اور اداروں کو سیاسی دکانیں چمکانے کے لئے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو ملکی سالمیت اور استحکام کو دھچکا لگائے۔ پاکستان میں لا قانونیت، وڈیرہ شاہی، مہنگائی،بجلی کے بلوں اور دیگر عوامل نے قوم کی کمر توڑ رکھی ہے اور اوپر سے ہنگاموں میں جلائی جانے والی املاک، ہونے والا نقصان ملکی معیشت پر بری طرح اثر انداز ہو گا۔سیاسی عمائدین کو چاہیئے کہ وہ ایسے واقعات میں ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالا کریں بلکہ جب کبھی ایسی خبر سامنے آئے تو اس کے حقائق جاننے کی کوشش کی جائے، گناہگار کو سزا ملے اور بے گناہ سرخرو ہونا چاہیئے۔برطانیہ اور پاکستان میں ایک ہی خبر نے عوام الناس کو ہنگاموں پر قائل کر لیا تھا عوام نے بھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ کیا یہ خبر درست بھی ہے؟ حکومت پاکستان کو سوشل میڈیا اور مقامی چینلز، اخبارات، جرائد اور میگزینز پر ”چیک اینڈ بیلنس“ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے جس تیزی سے آئینی ترامیم منظور کی ہیں اِسی طرح کوئی ایک ترمیم ایسی بھی منظور ہونی چاہیئے جو پاکستان کے سسکتے ہوئے عوام کے مفاد میں ہو۔ جس ترمیم کی منظوری سے عوام سکھ کا سانس لے سکیں، مہنگائی کم ہو، بجلی کے بلوں میں رعایت، لاقانونیت کا جن بوتل میں بند ہو جائے،بے چارے پاکستانی عوام اپنے گھروں میں بے فکر ہو کر سو سکیں، کیا ایسی کوئی ترمیم منظور ہو گی، کسی پارلیمنٹ میں پیش ہو گی، کوئی صدر اس پر دستخط کرے گا؟ کیا کبھی ایسا ہو گا؟