استاد کی ذات سے ہی معاشرہ مثالی بنتاہے اور معاشرے میں علم و حکمت کی روشنی بکھرتی ہے۔ استاد ہی وہ عظیم ہستی ہے جو شخصیتوں کی تعمیر کرتا ہے۔ استاد کی ذات اپنے شاگردوں کے لیے مشعل راہ ہوتی ہے۔ اس لیے استاد کو چاہیے کو اپنے اندر ایسے اوصاف پیدا کرے جس کی وجہ سے طالب علم کے کردار کی بھی تعمیر ہو سکے۔
ایک کامیاب استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے علم کے مطابق اس پر عمل بھی کرے۔ اگر معلم صالح اور با عمل ہو ا تو اس کی تعلیم کا اس کے شاگردوں پر زیادہ اثر ہوگا۔سورة البقرہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ”کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالا نکہ تم کتاب پڑ ھتے ہو “۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے اس علم پر عمل کیا جس کو وہ جانتا تھا تو اللہ تعالی اس کو ایسے علم کا وارث بنا دے گا جس کو وہ نہیں جانتا۔ (طبقات کبرٰی )۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا وہ علم جس کے ساتھ عمل نہ ہو وہ بغیر روح کے جسم کی مانند ہے۔
لہذا ایک اچھا استاد ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معلم اپنے علم پر خود عمل کرے گا تو دوسروں پر اس کا اثر زیادہ ہو گا اور اگر اس کے مطابق عمل نہیں کرے گا تو لوگوں کے سامنے اس کا تمسخر بن جائے گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا اے اللہ میں ایسے علم سے پنا ہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔
ایک بہترین استاد کو چاہیے کہ وہ عبادت وریاضت کا پا بند ہو اس سے دل روشن ہوتا ہے اور روحانیت حاصل ہوتی ہے۔ حضور غوث اعظم فرماتے ہیں اللہ تعالی کی عبادت کے ساتھ تزکیہ نفس کر و۔ اگر استاد پانچ وقت نماز کی پابندی کرے گا تو شاگرد بھی اپنے استاد کو دیکھ کر نماز کی ادائیگی کریں گے۔
ایک بہترین معلم وہ ہی ہے جس کا دل عشق مصطفی سے سرشار ہو گا۔ عشق رسول سے ایمان کی تکیل ہوتی ہے اور عشق مصطفی ہی سر چشمہ ایمان ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاﺅں۔
اگر ایک اچھا استاد یادِ محبوب میں تڑپتا ہو گا تو وہ اپنے شاگردوں کے دلوں میں اس شمع کو روشن کرے گا اور وہ معاشرے کے بہترین شہری بن کر نکلیں گے۔ صحابہ کرام ، تابعین ، اولیائے کرام اور صالحین کی زندگیوں کو مطالعہ کرنے سے اس بات کا علم ہو تاہے کہ ان کے دل ہمیشہ یاد مصطفی سے سر شار رہتے تھے اور وہ یہی شمع اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں روشن کرتے تھے۔