یوم سیاہ اور بھارت کی بے شرم ہٹ دھرمی
27 اکتوبر 1948ءکا دن بھارت کے فسطائی چہرے پر ایک ایسی کالک مل گیا ہے جو آج تک صاف نہیں ہو سکی اور پوری دنیا میں کشمیری یہ دن یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ بھارت کی جانب سے روزاول سے اردگرد کی ریاستوں کو زبردستی ہڑپ کرنے‘ انہیں غلام بنانے کے غیرجمہوری رویے کا یہ پہلا ثبوت تھا۔ اب تو خیر اسکے جمہوری چہرے پر جو حقیقت میں سامراجیت اور فسطائیت کا بدنما چہرہ ہے‘ کئی مرتبہ کالک ملی جا چکی ہے۔ کبھی میزو رام ، ناگالینڈ کی طرف سے کبھی تری پورہ اور خالصتان تحریک والوں نے نفرت کی کالک مل مل کر اس بدنما چہرے کو اور بھی سیاہ اور بدصورت بنا دیا ہے۔ اب بھارت لاکھ دنیا والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے 9 لاکھ فوجیوں کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر میں اپنے لے پالک سیاسی گھرانوں اور اپنی پروردہ جماعتوں کے ساتھ نام نہاد الیکشن کا ڈھونگ رچائے‘ وہاں قبرستان جیسی خاموشی کو امن کا نام دیکر چند غیرملکی سفارت کاروں اور مہمانوں کو فوجی پہرے میں کرفیو زدہ کشمیر کی سیر کرائے‘ اس سے حقیقت چھپ نہیں سکتی۔ 27 اکتوبر کا یوم سیاہ منانے والے آج بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ بدترین دن تھا جب بھارت نے اپنی فوجیں داخل کرکے کشمیر پر، جسے فطری طور پر پاکستان کا حصہ بننا تھا‘ جبری طور پر قبضہ کرلیا۔ 76 سالوں سے لاکھوں فوجیوں کو وہاں تعینات کرکے پوری وادی کو عملاً قید خانہ بنایا جا چکا ہے۔اس جیل میں کشمیریوں کے تمام انسانی حقوق اور سیاسی آزادی سلب کی جا چکی ہے‘ اسکے خلاف آج بھی کشمیری آزاری کا پرچم اٹھائے اپنی جنگ آزادی لڑرہے ہیں۔ پاکستان روزاول سے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے‘ اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کے ہر فورم پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑ رہا ہے‘ پانچ سال قبل بھارت نے اپنے آئین میں کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ختم کرکے عملاً اسے اپنا حصہ قرار دیدیا ہے۔ کشمیریوں سے انکی شناخت تک چھین لی ہے۔ تمام تر مظالم کے باوجود کشمیری مجاہدین آج بھی بھارتی فوجیوں کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ نام نہاد الیکشن اور اٹوٹ انگ کے جھوٹے دعوﺅں کو نہ پہلے کشمیریوں نے تسلیم کیا نہ آج کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی روزاول کی طرح کشمیریوں کے موقف کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس روز پورے پاکستان سمیت آزاد کشمیر میں خصوصی تقاریب ہوتی ہیں‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ہوتے ہیں‘ دنیا بھر میں پاکستان کے سفارت خانوں میں بھی مذاکرے اور سیمینار ہوتے ہیں۔ جن میں بھارت کےاس اقدام کی مذمت کی جاتی ہے۔ دنیا کو بھارتی غیرجمہوری اقدام سے آگاہ کیا جاتا ہے مگر بھارت ہر طرح کی شرم و حیاءسے بے پرواہ ہو کر آنکھیں اور کان بند کئےمسکراتے ہوئے ہے " گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا کی تصویر بنا ہوا ہے۔
اسلام آباد میں سیاسی قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر پارٹی کے کارکنوں کا حملہ‘ پولیس نے فرار ہونے والے دوبارہ پکڑ لئے۔
اسلام آباد سنگ جانی انٹرچینج کا تو نام اب بدل کر دل دا جانی رکھ دینا چاہیے۔ اسلام آباد میں چڑھائی کرنے والوں کی بدولت چاہیں تو اسے سنگ دل جانی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اسی کے قریب گزشتہ روز قیدیوں کو اٹک جیل لے جانے والی تین گاڑیوں پر گھات لگا کر پی ٹی آئی کےحامیوں نے فلمی سٹائل میں حملہ کیا اور گاڑیوں کو برسٹ مار کر ناکارہ بنا کر قیدیوں کو پولیس سے چھڑایا۔ ان میں تین ایم پی ایز بھی تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ڈی چوک کے ناکام پروگرام کے بعد پولیس کے قابو آئے تھے۔ اب شومئی قسمت سے فرار کا منصوبہ بھی ناکام ہوا اور اکثر و بیشتر قیدی پکڑ لئے گئے ہیں۔ اور اس واردات کا سرغنہ ایک ایم پی اے کا بہادر بیٹا بھی ساتھیوں سمیت دھر لیا گیا۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے اسے حکومت کی کارستانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یار ہمارے پارٹی والوں کے ساتھ بہت ہوا۔ اب کچھ ایسا ویسا نہ کریں ورنہ یاد رکھیں ایک صوبے میں ہماری حکومت ہے۔ اس پر حکومتی ترجمان کہہ رہے ہیں علی امین گنڈاپور صرف فلمی سین بناتے ہیں اور کہانیاں سناتے ہیں‘ بات جو بھی ہو مگر اس سے ایک نئی محاذآرائی جنم لے سکتی ہے۔ اس طرح قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر حملہ کوئی اچھی مثال نہیں‘ اوپر سے یہ سب سیاسی قیدی تھے۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہوجاتی تو سارا ملبہ حکومت پر گرنا تھا۔ علی امین گنڈا پور پہلے ہی اسلام آباد پولیس کیخلاف ہیں‘ وہ تو انکے آئی جی کو ہٹانے کیلئے اسلام آباد پر ایک اور چڑھائی کا اعلان بھی کر چکے تھے مگر نجانے کیوں ایک روز کی مہمان نوازی نے ان کا ایک کپ چائے کے عوض موڈ بدل دیا۔ یوں غصہ چھوڑیں ایک کپ چائے پی لیجئے والوں کی بات درست لگ رہی ہے۔ اب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان روز یہ گولہ باری جاری رہے گی۔ مگر بشریٰ بی بی اور انکے بعد عظمیٰ خان اور علیمہ خان کی بھی یکے بعد دیگرے رہائی کا عمل بتا رہا ہے کہ اب کوئی نیا سیاسی منظرنامہ آرہا ہے۔ یہ حملہ اسی طرف سے توجہ ہٹانے کیلئے کیا گیا یا کروایا گیا ہے۔ اس طرح اب قیدیوں کے حوالے سے مزید کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی جو دہشت گردی کے حوالے سے اندر ہیں۔ یوں وہ رگڑے میں آکر یہی کہیں گے کہ
واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوئے
بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا
پی ٹی آئی اور فضل الرحمان میں دوستی ختم‘ بلاول بھی سیدھے ہو گئے۔
جے یو آئی کی طرف سے 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کے بعد پی ٹی آئی والوں کا مزاج تو برہم برہم سا لگنے لگا ہے‘ کل تک جو قابل احترام مولانا صاحب کا ورد کرتے نہیں تھکتے تھے‘ اب ایک بار پھر انکے بارے میں بانی کے جلسوں والی عامیانہ زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کے ساتھ فضل الرحمان نے جو ہاتھ کیا یا جو گیم کھیلی‘ خدا جانے یہ سازش تھی یا شرارت‘ اس سے اڈیالہ جیل سے لے کر پشاور تک پی ٹی آئی والے سیخ پا ہیں۔ انگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔ اگرچہ خود پی ٹی آئی کے کئی نام بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو فضل الرحمان نے کیا مگر کیا کریں کپڑا اٹھانے سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے۔ اس لئے قیدی کپتان بہت سے رہنماﺅں کے نام سے ہی الرجک ہو گئے ہیں۔ بقول
باغبان نے آگ دی جب آشیانے کو میرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
اب اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنوں سے ناراض ہونے کا حق تو ہے‘ قیدی کو جو اندر پڑا کڑھ رہا ہے اور باقی باہر بیٹھے آرام اور سیاست کر رہے ہیں‘ اب مولانا فضل الرحمان اور آزاد پی ٹی آئی کے رہنماﺅں میں کب تک یہ حسن سلوک برقرار رہتا ہے کب پھر یہ ایک بار سرعام ایک دوسرے پر طنز و تشنیع کے تیر برساتے ہیں۔ فی الحال تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے البتہ بلاول بھٹو زرداری نے مولانا کو آئینہ دکھایا اور کہا کہ ہمارے مولانا کے بغیر بھی نمبر پورے تھے‘ (یعنی 26ویں ترمیم منظور کراسکتے تھے) تاہم مولانا کو ہم ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ چلیں کم از کم بلاول میں اتنی جرات تو ہے کہ انہوں نے کھل کر اصل صورتحال بیان کی۔ اس سے اب چاہے فضل الرحمان کی دل شکنی ہوتی ہے یا انکی پارٹی والوں کو برا لگتا ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہوتا ہے ایک طویل سلو اننگ کھیلنے کا انجام۔ لوگوں کو باتیں کرنے کا طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا موقع مل جاتا ہے۔ دبے لفظوں میں جو کہہ رہے ہیں کہ جے یو آئی والوں نے بہت سے مطالبات منوائے ہونگے۔ مفادات سمیٹے ہونگے‘ تب جا کر پی ٹی آئی کی بجائے حکومتی اتحاد کی حمایت کی۔ اس حمایت کیلئے بے شک بلاول نے سب سے زیادہ کام کیا اور بالآخر مولانا کو رام کرکے دکھایا۔ اس کامیابی کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔ اس کام میں انہیں شہبازشریف اور آصف زرداری کے علاوہ میاں نوازشریف کی بھرپور حمایت بھی حاصل رہی۔ یوں انہوں نے پی ٹی آئی محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل کے منہ سے شکار چھین کر اچھے شکاری ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
سردی کے آتے ہی گیس کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ۔
یہ تو اب ہماری روٹین میں شامل ہے کہ گرمی آتے ہی ہمیں بجلی کے بلوں میں اضافہ کی وجہ سے کرنٹ لگنا شروع ہو جاتے ہیں‘ اسی طرح سردی آتے ہی گیس کے بلوں میں اضافہ ہمارے گھر کو جلانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ سو دیکھ لیں ابھی سردیوں نے ہمارے دروازے پر دستک ہی دی تھی کہ سوئی گیس والوں کی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے تین ماہ کی گہری نیند سے بیدار ہو کر پہلا کام جو کیا وہ یہ ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ‘ وہ بھی غیراعلانیہ شروع کر دی ہے۔ اس بار تو گرمیوں میں بھی گیس کی کمی اور غائب رہنے کی شکایات عام تھیں۔ اب سردی آتے ہی وقفے وقفے سے گیس غائب ہونے لگی ہے۔ گھریلو خواتین کھانا پکانے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں‘ اسکے ساتھ ایک اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایل پی جی کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔ بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے اب ایل پی جی کا سلنڈر خرید کر کام چلانے والے بھی حیران ہیں کہ اب کیا کریں گے۔ سوئی گیس کا محکمہ گیس کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے تو ذرا بھی نہیں شرماتا۔ اسے بھلا گیس کی لوڈشیڈنگ سے کون سی شرم آئیگی۔ یہ لوگ تو بس قیمت میں اضافہ پر توجہ دیتے ہیں اور صارف کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں جو گیس کی قیمت میں اضافہ بھی برداشت کرتے ہیں اور گیس کی لوڈشیڈنگ بھی۔ لوگ ان چیزوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ تو سو پیاز اور سو جوتے والی کہاوت کو درست ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا نہ کریں تو اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بس خاموشی سے بھاری بل جمع کراتے ہیں کیونکہ ایسا نہ کریں تو کنکشن کٹنے کا ڈر الگ ستاتا ہے۔ جسے دوبارہ لگوانا ایک الگ درد سر اور خرچہ ثابت ہوتا ہے اس لئے چپ چاپ لٹتے ہیں۔ اب تین چار ماہ گیس کی آنکھ مچولی جاری رہے گی‘ قوم کو گیس میسر نہیں ہوگی اور بھاری بل باقاعدگی سے موصول ہوتے رہیں گے۔ یوں گھروں میں ایک نئی تلخی جنم لے گی۔ صبح کا ناشتہ کئے بغیر بچے سکول‘ کالج اور میاں دفتر یا دکان پر جائیں گے اور خاتون خانہ سوئی گیس والوں کی خانہ خرابی کی بددعائیں دیتی نظر آئیں گی۔ یہ آہ و زاری اور بددعاﺅں کا سیزن اپریل تک جاری رہے گا۔ ہمیشہ کی طرح نہ سوئی گیس والے لوڈشیڈنگ ختم کریں گے نہ ہی لوگوں کی بددعائیں رنگ لائیں گی۔