کشمیریوں کا آج کا یومِ سیاہ اسرائیل کا ایران پر بھی حملہ اور مسلم دنیا کی بے حسی

    کشمیری عوام اپنی ارض وطن وادءکشمیر پر بھارتی فوجی تسلط کے خلاف آج 27 اکتوبر کو مقبوضہ وادی ، بھارت اور دنیا بھر میں یوم سیاہ اور یوم الحاق پاکستان اس فضا میں منا رہے ہیں جب اپنے آزاد وطن کیلئے گذشتہ 76 سال سے جدوجہد میں مصروف فلسطینی باشندے ظالم اور غاصب اسرائیل کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ ان پر ایک نئی کربلا بپا ہے اور اب اسرائیل کے جنونی توسیع پسندانہ عزائم لبنان اور ایران تک بھی جا پہنچے ہیں اور ہفتے کی علی الصبح اسرائیل نے ایران پر بھی فضائی حملہ کر دیا ہے۔ غزہ میں تو اسرائیلی بمباری سے بھی، ادویات نہ ملنے سے بھی اور بھوک پیاس سے بھی روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں بے بس مسلمان دم توڑ رہے ہیں، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت ساری الحادی قوتیں اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہیں۔ حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے اسے جنگی سازوسامان سے لیس کر رہی ہیں اور مسلم دنیا نے مسلسل بے حسی کی چادر تان رکھی ہے۔ محض مذمتی بیانات اور رسمی قراردادوں کے سوا کسی مسلم ریاست، ماسوائے ایران،کی جانب سے کوئی عملی قدم اٹھایا جاتا نظر نہیں آرہا۔ پاکستان کی جانب سے فلسطینیوں اور کشمیریوں کی امداد کے لیئے گذشتہ روز عملیت پسندی پر مبنی قرار دادیں ضرور قومی اسمبلی میں منظور گئی ہیں اور وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیلی اور بھارتی مظالم پر گہری فکر مندی کا اظہار کیا ہے۔ کشمیری عوام مسلم دنیا کی اس بے حسی کے باعث ہی گزشتہ 77 برس سے اپنی آزادی کی جدوجہد میں بھارتی فوجوں کا تنہا مقابلہ کررہے ہیں اور اپنی بے بہا قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ بھارت نے تقسیم ہنداور قیام پاکستان کے سوا دو ماہ بعد 27 اکتوبر 1947ءکو مہاراجہ ہری سنگھ سے منسوب ایک جعلی دستاویز کو جواز بنا کر وادی کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کی تھیں اور آج 77 سال بعدبھی وادی کشمیر بھارتی فوجوں کے تسلط میں ہے جنہوں نے کشمیریوں کی بھارتی تسلط سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے اٹھائی جانے والی آواز دبانے کیلئے ہر قسم کے مظالم اور جبر و تشدد کے کسی ہتھکنڈے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسکے باوجود مادر وطن کی آزادی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے جذبے سے معمور کشمیری عوام کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی لرزش پیدا نہیں کی جا سکی۔ کشمیری عوام ہر سال 27 اکتوبر کو اسی جذبے سے لبریز ہوکر بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ اور یوم الحاق پاکستان مناتے ہیں اور عالمی ضمیر بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اسی تناظر میں آج بھی کشمیری عوام دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے کر کے اور ریلیاں نکال کر عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی فوجوں اور دوسری سکیورٹی فورسز کے مظالم اور کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی سے علاقائی اور عالمی امن و استحکام کو لاحق ہونے والے سنگین خطرات کی جانب متوجہ کریں گے اور دیرینہ مسئلہ کشمیر کے یو این قراردادوں کے مطابق حل کیلئے اپنی جدوجہد مزید آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کریں گے۔ 
بھارت کی ہندو بنیاءقیادت اپنے ہندوتوا کے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے تحت برصغیر کے مسلمانوں کیلئے بانیانِ پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم کی الگ خطہءارضی کی جدوجہد کی سخت مخالف تھی اس لئے انہوں نے23 مارچ 1940ءکی قراردادلاہور کی بنیاد پر قائداعظم کی زیر قیادت شروع ہونے والی تحریک پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کر دئیے۔ مگر حصول پاکستان کی اس جدوجہدمیں تحریکِ پاکستان کے قائدین کے ساتھ ساتھ اس تحریک میں شامل مسلمان عوام بھی ثابت قدم رہے۔ چنانچہ برطانوی وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن تقسیم ہند کا فارمولا دینے پر مجبور ہو گئے جس کے تحت ہندوستان کی خودمختار ریاستوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس فارمولے کے تحت اکثریتی آبادی کی بنیاد پر متعلقہ ریاستوں کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا اختیار بھی دیا گیا۔ اس وقت مہاراجہ ہری سنگھ ریاست جموں و کشمیر کے حکمران تھے جبکہ اس ریاست کی اکثریتی آبادی پر مشتمل مسلمانوں نے چودھری غلام عباس کی قیادت میں اپنے ایک نمائندہ اجتماع میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا باقاعدہ فیصلہ اور اعلان کر دیا۔ 
اسکے برعکس بھارت کی ہندو قیادت کی نیت کشمیر پر تسلط جمانے کی تھی تاکہ بادل نخواستہ پاکستان قائم ہو جائے تو کشمیر کا اس کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا جائے۔ ہندو لیڈر شپ کی اس بدنیتی میں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے بھی ان کا ساتھ دیا اور پاکستان بھارت سرحدوں کی نشاندہی کیلئے قائم باو¿نڈری کمشن کی رپورٹ کے برعکس گورداسپور کا علاقہ بھارت میں شامل کرا دیا تاکہ اسے ریاست جموں و کشمیر تک رسائی میں آسانی ہو سکے۔ اسی طرح قیام پاکستان کے بعد کشمیریوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے فیصلہ پر بھی عملدرآمد نہ ہونے دیا گیا جس کا مقصد بھارت کو کشمیر پر تسلط جمانے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ 
اسی دوران26 اکتوبر 1947ءکو بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کی جانب سے مہاراجہ ہری سنگھ سے منسوب ایک دستاویز منظرعام پر لائی گئی جو کشمیر کے بھارت سے الحاق کا جعلسازی پر مبنی ایک معاہدہ تھا جسے جواز بنا کر بھارت نے اگلے ہی روز 27 اکتوبر کو ریاست جموں و کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر کے اسکے غالب حصے پر اپنا تسلط جما لیا اور پھر خود ہی کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اسکے تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کر دی۔ بھارت نے اس قرارداد کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ سے منسوب الحاق کے معاہدے کی دستاویز منسلک کرنے سے بھی گریز کیا تاکہ اس کا جھوٹ طشت ازبام نہ ہو سکے۔ کیونکہ اس دستاویز پر مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخط تک موجود نہیں تھے جو اسکے جعلی ہونے کا ثبوت تھا۔ پھر یہ دستاویز سرے سے غائب کر دی گئی جو آج بھی دنیا کے کسی آرکائیو میں موجود نہیں۔ اسی بنیاد پر ایک انگریز مورخ و محقق چارلس لیمب نے اپنی کتاب میں کشمیر کے بھارت سے الحاق کے دعوے کو فراڈ اور مہاراجہ ہری سنگھ سے منسوب معاہدے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا مگر بھارت نے اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے اور پاکستان کو کمزور کرنے کے منصوبے کے تحت کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی برقرار رکھی ، سلامتی کونسل نے بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے 20 جنوری 1948ءاور 21 اپریل 1948ءکو پیش کی گئی قراردادوں پر فیصلہ صادر کرتے ہوئے کشمیری عوام کو استصواب کا حق دیا اور یو این کمشن برائے بھارت و پاکستان تشکیل دے کر اسکے ماتحت استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی جس کیلئے بھارت سے کہا گیا کہ وہ رائے شماری کیلئے اقوام متحدہ کے نامزد کردہ استصواب ایڈمنسٹریٹر کا تقرر عمل میں لائے گا اور کشمیر سے بتدریج اپنی افواج نکال لے گا ، مگر بھارت سلامتی کونسل کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کے باوجود اس پر عملدرآمد سے منحرف ہو گیا اور مقبوضہ وادی میں اپنا فوجی تسلط بڑھانا شروع کر دیا۔ 
اس بھارتی اقدام کی بنیاد پر ہی پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کا ماحول پیدا ہوا جبکہ بھارت نے حالات سازگار بنانے کے بجائے کشیدگی بڑھانے والے اقدامات اٹھانا شروع کر دئیے جس سے پاکستان اور بھارت کے مابین اب تک تین جنگوں کی نوبت آچکی ہے۔ 71ءکی جنگ میں بھارت پاکستان کو سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کر چکا ہے اور باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی تاراج کرنے کی سازشوں میں مگن ہے جس کیلئے اس نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی چنانچہ پاکستان بھی اپنی سلامتی کے تحفظ کی خاطر ایٹم بم بنانے پر مجبور ہوا۔ 
بھارت کو ہماری ایٹمی صلاحیتوں کے باعث ہی اب تک پاکستان پر باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کی جرا¿ت نہیں ہوئی مگر اسکے توسیع پسندانہ عزائم اس سے کچھ بھی کرا سکتے ہیں۔ یہ صورتحال اس لئے بھی الارمنگ ہے کہ اگر بھارتی شرانگیزیوں سے دونوں ممالک میں جنگ کی نوبت آئی تو وہ علاقائی اور عالمی تباہی پر منتج ہو گی کیونکہ وہ روایتی کے بجائے ایٹمی جنگ ہو گی چنانچہ یہ بھارتی بدنیتی عالمی قیادتوں اور اداروں سے بھارتی جنونی توسیع پسندانہ ہاتھ روکنے کی متقاضی ہے۔ بھارت کی موجودہ مودی سرکاری نے اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت پانچ سال قبل پانچ اگست 2019ءکو بھارتی آئین کی دفعات 370 ، اور 35 اے کو حذف کرا کے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اسے سری نگر اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کر کے بھارت میں ضم کر دیا جو درحقیقت اسکی کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کی سازش تھی۔ اس بھارتی اقدام کے باعث پاکستان بھارت کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب کشمیری عوام اسی تناظر میں عالمی برادری کو بھارت کا مسلم دشمن اصل مکروہ چہرہ دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ 
آج 27 اکتوبر کو کشمیری عوام اسی جذبے کے تحت بھارتی فوجی تسلط کے خلاف دنیا بھر میں یوم سیاہ اور یوم الحاق پاکستان منا رہے ہیں۔ آج فلسطینی عوام پر ٹوٹی ہوئی قیامت اور ایران پر گذشتہ روز کے اسرائیلی فضائی حملے کے حوالے سے مسلم دنیا کی کمزوریوں کو بھانپ کر بھارت کے حوصلے مزید بلند ہو سکتے ہیں اور وہ کشمیریوں پر نئے مظالم کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھی نئی سازشیں تیار کر سکتا ہے۔ اگر عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں نے بھارتی اور اسرائیلی جنونیت کا اب بھی نوٹس نہ لیا اور مسئلہ کشمیر و فلسطین کے حل کیلئے یو این قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کیا تو بھارت اور اسرائیل کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کی تباہی بعیداز قیاس نہیں جس کی یہ صیہونی الحادی قوتیں مکمل تیاری کئے بیٹھی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن