27 اکتوبر یوم سیاہ کشمیر اور بھارتی ہٹ دھرمی

Oct 27, 2024

سید مجتبیٰ رضوان

27اکتوبر 1947 کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتارکر غیر قانونی قبضہ کرلیا جو تا حال قائم ہے۔ ا±س دن کے بعد سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایسا دور شروع ہوا کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے ہی یکسر محروم کردیا گیا۔ بھارتی افواج کے ظالمانہ ہتھکنڈوں اور ظلم و جبر کے باوجود کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے مطالبہ سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے، بھارت نوشتہ دیوار پڑھ لے اور تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے74 سال پہلے اس دن بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے بے گناہ عوام کو دبانے، خوفزدہ کرنے، انہیں محکوم بنانے اور مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیلئے اپنی افواج سرینگر میں اتاری تھیں۔
 بھارت کا ظلم و جبر آج بھی جاری ہے، عالمی برادری سے وعدوں اور جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی قراردادوں کے باوجود بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں دہشت کی فضاءقائم کر رکھی ہے اور بھارت اپنے وعدے پورے کرنے سے انکاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 جولائی کو نوجوان کشمیری رہنما برہان وانی کی ماورائے عدالت شہادت کے بعد بھارتی قابض افواج نے ظالمانہ ہتھکنڈے تیز کر دیئے ہیں۔ انہوں نے تمام انسانی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے اور نہتے اور بے یار و مددگار کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی انتہاءکر دی ہے۔
جموں و کشمیر کے عوام گزشتہ 70 سال سے بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، آزادی کی جدوجہد میں شامل ہیں، انہیں بدترین قسم کی بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بڑی جرات کے ساتھ بھارتی محکومی اور مظالم کا مقابلہ کیا ہے اور نئی دہلی انہیں ڈرانے دھمکانے میں ناکام رہی ہے۔ 27 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے اترنے سے عوام کے دکھوں کا آغاز ہوا۔ اس لیے دنیا بھر میں جہاں بھی کشمیری رہتے ہیں اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان نے 1947 میں آزادی کے قانون اور تقسیم کے منصوبے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ انڈین برٹش کالونی دو خودمختار ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گی، اس نے اپنی فوجیں جموں و کشمیر میں بھیجیں۔ بھارت نے حیدرآباد ، جوناگڑھ اور جموں و کشمیر کی ریاستوں پر زبردستی قبضہ کیا ، پہلی دو ہندو اکثریتی ریاستیں ہیں جن میں مسلم حکمران ہیں جبکہ وادی میں اکثریت مسلم آبادی کی تھی لیکن اسے ہندو حکمران چلا رہے تھے۔ ہندوستانی حکومت اور مہاراجہ ہری سنگھ نے الحاق کا آلہ رکھنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن بہت سے عالمی مورخین ایسی کسی بھی دستاویز کے وجود کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کرتے ہیں کہ اگر یہ موجود ہوتی تو ہندوستانی حکومت اسے سرکاری طور پر یا کسی بین الاقوامی فورم پر عام کرتی۔ . ایسا کبھی نہیں ہوا۔
کشمیری عوام نے کبھی بھی غیر قانونی قبضے کو قبول نہیں کیا اور 1947 میں عوامی بغاوت کے ذریعے آزادی کی جدوجہد شروع کی۔ دریں اثناءہندوستانی حکومت نے یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا، کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لیے اس کی مدد طلب کی۔سلامتی کونسل نے جنگ بندی، جنگ بندی لائن کی حد بندی، ریاست کو غیر مسلح کرنے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کی منظوری دینے والی دو قراردادیں منظور کیں۔ یہ قراردادیں 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کو منظور کی گئیں جنہیں پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا۔ ان قراردادوں کا صرف ایک مرحلہ (جنگ بندی اور جنگ بندی لائن کی حد بندی) نافذ کیا گیا جبکہ مقبوضہ علاقے کو غیر مسلح کرنا اور رائے شماری کا انعقاد ابھی تک غیر عملی ہے۔
جنوری 1989 سے 2021 تک بھارتی فوجیوں نے تقریبا 2لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا، ہزاروں خواتین کو بیوہ، بچے یتیم ہوئے جبکہ ہزاروں کشمیری خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔ کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ 10ہزار سے زائد بے گناہ نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا جن کے ٹھکانے کا بھی کوئی پتہ نہیں چل سکا۔ جبکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو جعلی مقابلوں میں بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کے بعد علاقے میں دریافت ہونے والی ہزاروں بے نشان قبروں میں دفن ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
سینکڑوں نوجوان اپنی ایک یا دونوں آنکھیں گولی کے زخموں سے کھو چکے ہیں جبکہ ہزار سے زائد اپنی بینائی سے محروم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ حریت رہنماو¿ں سمیت سینکڑوں افراد کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ جس میں گزشتہ ماہ یکم ستمبر2021 بطلِ حریّت، مقبوضہ کشمیر میں چلتے پِھرتے پاکستان، سیّد علی گیلانی نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے ربّ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے، آزادی کی جس جدوجہد کے لیے زندہ رہے، اپنے جیون کے92 برس گزار کر اسی کے نام کے ساتھ آنکھیں موندلیں۔
اکتوبر میں ایک اور تاریخ کشمیریوں کے لیے اہم ہے یعنی 22 اکتوبر 1947 کو پشتونوں اور کشمیری رضاکاروں نے زمین کو آزاد کرانے کے لیے آگے بڑھنا شروع کیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ بے چین ہو گیا اور بھارتی مدد کے لیے علاقے سے بھاگ گیا۔ بھارت نے فوری طور پر فوجیں لانچ کیں جو 26 اکتوبر 1947 کو سری نگر میں اتریں۔ مہاراجہ نے بعد میں انضمام کے دستخط پر دستخط کیے۔ کشمیری اور پشتون قبائلی رہنماﺅں کی پیش قدمی جزوی کامیابی کا باعث بنی کیونکہ بھارتی فورسز پہلے ہی سری نگر پہنچ چکی تھیں۔ آزاد علاقے کا نام آزاد جموں و کشمیر رکھا گیا۔

مزیدخبریں