سپریم کورٹ میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے اعزاز میں الوداعی فْل کورٹ ریفرنس میں نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے بارہ موجودہ ججز نے شرکت کی۔ جب کہ حیران کن طور پر سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ سمیت پانچ ججز جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس ملک شہزاد بھی شریک نہیں ہوئے ۔ بظاہر تو یہ ایک خبر اور تقریب ہی ہے لیکن اس ریفرنس میں سینئر ججز کی عدم شرکت سے ادارے میں تقسیم واضح ہونے سے اچھا پیغام نہیں گیا۔ فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہ ہونا معزز جج صاحبان کا اپنا فیصلہ ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ شرکت کرتے اور اظہار خیال کرتے لیکن اب چونکہ وقت گذر چکا ہے اب اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کسی بھی قسم کے اختلافات کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا ہے۔ اگر کسی بھی معاملے میں اعلیٰ عدلیہ میں اختلافات پائے جاتے ہیں تو اس کو آئین و قانون ، قواعد و ضوابط میں رہتے ہوئے دور کیا جانا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے اور یہی وہ چیز ہے جس کی سائلین توقع کرتے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے معزز جج صاحبان پر قوم کی نظریں ہوتی ہیں وہاں اس قسم کی تقسیم سے عوامی سطح پر اچھا پیغام نہیں جاتا اور ایسی تقسیم کے بعد اگر فیصلوں پر سوال اٹھتا ہے تو غیر ضروری طور پر منفی خیالات اور مہم شروع ہوتی ہے۔ ہمیں اس وقت اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے۔ نظام عدل کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس بارے سب متحد ہو کر کام نہیں کریں گے اس وقت تک اصلاح ممکن نہیں ہے تو ہمیں اس پہلو کو ضرور دیکھنا چاہیے ۔ انصاف کی فراہمی کے معاملے میں پاکستان کا نمبر بہت نیچے ہے ان حالات میں اعلیٰ عدلیہ میں ایسی تقسیم سے حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کا رول آف لاء انڈیکس ملک کے نظام انصاف کے ساتھ طرز حکمرانی کیلئے بھی ایک سنگین چارج شیٹ ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک سو بیالیس ممالک میں سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی ایک سو انتیسویں نمبر پر ہے۔ خطے میں درجہ بندی کی جائے تو چھ ممالک میں سے یہ پانچویں نمبر پر ہے۔ یہ صورت حال تشویشناک ہے متعلقہ ادارے بالخصوص نظام عدل سمیت دیگر شعبوں کو اس حوالے سے ناصرف اپنی کارکردگی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگر نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے تو اس طرف بھی جانا ہو گا۔ اگر آئین میں بوقت ضرورت ترامیم ہو سکتی ہیں تو پھر کسی بھی نظام میں اصلاحات کیوں مہیم ہو سکتیں۔ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق بہتر حکمت عملی سے کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ فوجداری انصاف کے شعبے میں 2024 میں 142 ممالک میں سے پاکستان اٹھانویں نمبر پر ہے جبکہ خطے میں یہ چھ ممالک میں سے چوتھے نمبر پر ہے۔ شہری انصاف کی فراہمی میں پاکستان کی عالمی پوزیشن 128 ویں جبکہ خطے میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ریگولیٹری انفورسمنٹ (ضابطوں کے نفاذ) کے شعبے میں پاکستان کی عالمی پوزیشن 127 ویں اور خطے میں پانچویں نمبر پر ہے ۔ نظم و ضبط میں پاکستان 142 ممالک میں سے تیسرا خراب ترین ملک ہے کیونکہ اس کی عالمی پوزیشن 142 ممالک میں ایک سو چالیسویں نمبر پر ہے۔
سو یہ اعداد و شمار، ریٹنگ اور سروے ان تمام چیزوں کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں غیر سیاسی فیصلوں کی طرف بڑھنا ہو گا۔ پاکستان میں مختلف اداروں کی کارکردگی پر ہمیشہ سوالات رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے نہ تو ہم وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق اصلاحات کرتے ہیں نہ کام کرنے کا انداز بدلتے ہیں نہ اس حوالے سے تجاویز کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے ہمیں آگے بڑھنے اور دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے دقیانوسی خیالات سے جان چھڑانا ہو گی۔ ہر وقت سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے رہنا ملک و قوم کے ساتھ زیادتی و ناانصافی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے لیے لازم ہے کہ وہ بھی آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گی۔
راولپنڈی میں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی سننے میں آیا ہے کہ کسی نے بہت غصے کا اظہار کیا ہے۔ اگر ایسا رویہ پڑھے لکھے اور ذمہ دار افراد کی طرف سے ہو تو وہ پریشان کن ہے کیونکہ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد ایک عرصے تک پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم رہا ہے۔ اب ملک میں بین الاقوامی کرکٹ ہو رہی ہے تو مختلف شہروں میں رہنے والوں کو غیر ملکی کھلاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرنا ہو گا۔ انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ بہتر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں رہے شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ انتظامیہ سے تعاون کریں وہ وقت یقینا آئے گا جب ایک مرتبہ پھر ہم معمول کے مطابق اور ایسی سختیوں سے آزاد ہوں گے۔
رہی امن و امان کی بات تو اس حوالے میں ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و جوان اپنے خون سے تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ہمارے جوان اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں، ہمارے آج اور کل کو محفوظ و پرامن بنانے کے لیے عظیم قربانیاں دے رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں نے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں دس اہلکار شہید ہو گئے۔ دہشتگردوں نے ڈی آئی خان کے علاقے درازندہ میں زام ایف سی چیک پوسٹ پر رات کی تاریکی میں حملہ کیا، حملے میں ایف سی کے دس جوان خارجی دہشتگردوں کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ شہید ایف سی کے چھ جوانوں کا تعلق جنوبی وزیرستان اور چار جوانوں کا تعلق ضلع کرک سے ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایف سی چیک پوسٹ پر دہشتگردوں کے حملے اور بنوں میں ایس ایچ او تھانہ جانی خیل کی گاڑی اور کوہاٹ میں سب انسپکٹر پر فائرنگ کے واقعات کی بھی مذمت کی۔
لکی مروت میں خوارج کے مسجد پر حملے کے دوران پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کیڈٹ عارف اللہ دہشتگردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق لکی مروت میں خوارج نے نماز مغرب کے دوران مسجد پر حملہ کیا تو اس وقت ملٹری اکیڈمی کاکول کے کیڈٹ عارف اللہ بھی مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے موجود تھے۔ خوارج نے جیسے ہی فائرنگ شروع کی کیڈٹ نے فوراً جواب دیا اور کیڈٹ عارف اللہ نے خوارج کا بہادری سے مقابلہ کیا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں انیس سال کے کیڈٹ عارف اللہ نے جام شہادت نوش کیا اور اپنی جان قربان کرتے ہوئے نمازیوں کی جانیں بچائیں۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں پولیس چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں چار سکیورٹی اہلکار وں سمیت چھ افراد شہید ہو گئے۔
پولیس کے مطابق میرعلی کے علاقے عیدک میں پولیس پوسٹ پر ہونے والے خودکش حملے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ خود کش حملے میں چار سکیورٹی اہلکار اور دو شہری شہید ہوئے۔
بنوں میں دوران گشت پولیس موبائل پر نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر دی، پولیس کی جوابی فائرنگ سے دو حملہ آور ہلاک ہوئے۔ بنوں پولیس کے مطابق تھانہ کینٹ کی موبائل وین پر چند مری کے قریب نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کردی، پولیس کی جوابی کارروائی میں میں دو حملہ آور مارے گئے۔
دوسری طرف باجوڑ کے تحصیل ناوگئی کے علاقے دربنو میں ایف سی اور پولیس کے مشترکہ چیک پوسٹ پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، حملے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا، پولیس کی جوابی کارروائی جاری ہے۔
یہ وہ کارروائیاں رپورٹ ہوئی ہیں کیا ان حالات میں بھی ہمیں ہر وقت ایک دوسرے کو سیاسی طور پر کمزور کرنے اور دشمن کو حملے کے مواقع فراہم کرنے ہیں یا پھر ملک و قوم کی بہتری کے لیے سیاسی و معاشی استحکام پر توجہ دینی ہے۔ دشمن مساجد پر حملہ آور ہے اور سڑکوں پر آگ لگانے کا سامان کر رہے ہیں۔ دشمن ہماری مساجد کو ویران کرنے اور اسے خون رنگین کرنے پر کام کر رہا ہے اور ہم اپنی اسمبلیوں کو الزام تراشی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کیا ایسے معاملات آگے بڑھیں گے۔ سیاسی و عسکری قیادت اعلیٰ عدلیہ سمیت سب کو تیزی سے بدلتے ہوئے وقت میں ملک کو بہتر بنانے اور پچیس کروڑ لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔
آخر میاں شکیل بدایونی کا کلام
غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت ترے نام تک نہ پہنچے
میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی
ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہل دل کیا جو عوام تک نہ پہنچے
مرے طائر نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
جو نقاب رخ اٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی
اٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے
انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے
وہی اک خموش نغمہ ہے شکیل جان ہستی
جو زبان پر نہ آئے جو کلام تک نہ پہنچے
فل کورٹ ریفرنس، رول آف لا انڈیکس اور امن کے لیے شہادتیں !!!!
Oct 27, 2024