حضرت آغا صاحب سے شناسائی تو اس زمانے کی تھی جب وہ ’’آٹا ڈے ‘‘ منایا کرتے تھے اور کافی ہائوس میں شام کی بجائے دن کے وقت بیٹھا کرتے تھے لیکن ان سے ملاقات لندن میں 1955ء میں ہوئی جب وہ حمید نظامی صاحب کے ساتھ برلن میں آئی پی آئی کی کانفرنس میں شرکت کے بعد تشریف لائے۔ کیا متحرک شخصیت پائی تھی اس خدا کے پیارے بندے نے۔ 1962ء میں جب حمید نظامی صاحب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے ہی ٹیلی فون ایکس چینج والوں پر گرج برس کرفوراً لندن کال ملوائی اور مجھے فوراً لاہور پہنچنے کا پیغام دیا۔ نظامی صاحب کے انتقال کے بعد ان کے قریبی رفقاء میں شورش کاشمیری صاحب سرفہرست تھے۔ ان میں خورشید مرحوم تو جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ میاں امین بھی ایک مارشلائی جرمانے کے صدمے کی نذر ہوگئے۔ راجہ حسن اختر کنونشن لیگ میں شمولیت کے المیہ کو برداشت نہ کر سکے۔ خواجہ عبدالرحیم نے تو ایک بار موت کو شکست دے دی لیکن ایک سال بعد موت نے انہیں آ لیا۔آغا صاحب کی قسمت میں ان سب کے نوحے کہنا لکھنا تھا۔ یہ کس قدر دلآویز اور پیاری شخصیتیں تھیں لیکن خورشید مرحوم سے آغا صاحب کو آخری دم تک ایک گلہ رہا۔ مرحوم آغا صاحب کو مادرِ ملت مرحومہ کے ایوب خاں کو چیلنج کے دور میں فیلڈ مارشل کے موچی دروازے والے جلسے میں لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس جلسے کے بعد وہ کئی روز خاموش رہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایسا لگتا ہے جیسے میرا جوان بچہ مر گیا ہے۔ مجھے یقین ہے آغا صاحب خلد میں شیخ صاحب سے گلہ شکوہ کر رہے ہوں گے اور حمید نظامی صاحب ان دونوں کی صلح کروا رہے ہوں گے۔ میری اور آغا صاحب کی عمر میں بہت فرق تھا۔ میرااور ان کا سیاسی و معاشرتی پس منظر بھی مختلف تھا لیکن اس تفاوت کے باوجود حمید نظامی صاحب کی طرح وہ بلا ناغہ صبح سویرے مجھے بھی فون کیا کرتے تھے۔ وہ سابق قوم پرست تھے اور میں ذہنی طور پر مسلم لیگی۔ وہ مولانا آزاد اور مولانا مدنی کے مرید مداح تھے۔ میں ان کا نکتہ چین اور سیاسی مخالف۔ بعض اوقات تین چار بار ایسا ہوا، وہ نام لے کر یا نام کے بغیر ہماری پالیسی سے ’’چٹان‘‘ میں اختلاف کرتے۔ ایسا بھی ہوا کہ دوستوں نے پریشان ہو کر مکہ مکرمہ تک سے دونوں کو خط لکھ دیا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ اور ہم دونوں پڑھ کر ہنس دیتے۔
آغا صاحب اپنی ذات میں انجمن تھے۔ جری سیاستدان، شاعر اور ادیب، شعل نوا مقرر اور صحافی، اس لحاظ سے وہ ایک ادارہ تھے۔ اقبال کے فدائی اور مجاور تھے۔ بانی پاکستان بابائے قوم کو اپنے پیرو مرشد بخاری مرحوم کی ہدایت کے مطابق قائد اعظم مانتے تھے۔ قوم پرست ماضی کے باوجود وہ کٹر پاکستانی اور نظریہ پاکستان کے دل سے قائل تھے لیکن ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ وہ سات بچیوں اور چاربیٹوں کے باپ بھی تھے ، میرے سمیت ان کے قریبی دوستوں نے ہمیشہ اپنی سیاسی لڑائیوں سے اجتناب اور بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کی فکر کی تاکید کی کیونکہ وہ سیاسی لڑائیوں کی وجہ سے اچانک جیل پہنچ جاتے تھے اور ان کے گھریلو ذمہ داریوں کے سلسلہ میں ذہنی پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے۔ ان کی سیاست کا اثران کے افرادِ خانہ پر بہت بْرا پڑتا تھا۔ اس وجہ سے اپنی زندگی میں وہ صرف اپنی سب سے بڑی صاحبزادی کی منگنی کی رسم کی خوشی ہی دیکھ سکے۔ اپنے بچوں کی خوشیوں کے بارے میں باقی حسرتیں وہ دل میں ہی لے کر چلے گئے لیکن بوجھ کے اس پہاڑ کے باوجود جب انہیںبلاوا آنے والا تھا تو موج صاحب اور سلہری صاحب گواہ ہیں کہ انہیں صرف ایک شام پہلے فکر تھی تو صرف یہ کہ وہ آقائے دو جہاں سرورِ کونینؐکے حضور حاضر ہوں گے تو سرخرو ہوں اور خاتم النبیین کے کروڑوںغلام کو گواہی دیں گے کہ اپنی ہزار بشری کمزوریوں کے باوجود آغا صاحب آغا سرکار دوعالمؐ کے دربار میں آج سرخرو کھڑے ہوں گے۔
انہوں نے ختم نبوت کا علم اس وقت بھی سر بلند رکھا جب ایک وقت وہ اس میدان میں تنہا رہ گئے۔ ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا