آغا شورش کاشمیری کا اصل نام عبدالکریم، والد کا نام نظام الدین اور دادا کا نام امیر بخش تھا۔ آپ نے امرتسر کے پابند صوم و صلوٰہ متوسط کشمیری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کی پرورش آپ کی دادی نے کی۔ چونکہ وہ ایک متقی اور عابدہ خاتون تھیں اس لئے ابتدائی تعلیم و تربیت میں دینی اثرات بچے کی زندگی پر مرتب ہوئے۔ امرتسر میں کچھ عرصہ تک سکونت اختیار کرنے کے بعد آپ نے لاہور میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ان دنوں لاہور میں مولانا ظفر علی خان کے زمیندار اخبار کا بہت چرچا تھا۔ آغا شورش اس پرچہ کے مستقل قاری تھے۔ گو کہ آپ کی تعلیم میٹرک تک تھی مگر خدادداد صلاحیت اور بے پناہ ذہانت کے باعث اور زمیندار کے متواتر مطالعہ سے آپ کے دل میں ادب کا شوق پیدا ہوا اور شعر و سخن میں بے حد دلچسپی لینی شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے شعر و ادب کی دنیا میں ایک ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر کی حیثیت سے نام پیدا کر لیا اور شعر و ادب کی دنیا میں عبدالکریم کی بجائے شورش کاشمیری کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ ساتھ ہی انہوں نے سیاسی زندگی میں بھی قدم رکھا اور سیاست کی دنیا میں وہ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابولکلام آزاد سے بے حد متاثر تھے جو اس وقت صحافت اور سیاست کی دنیا میں اہم شخصیات تھیں۔ خطابت بھی ایک فن ہے جو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے لیکن جب تک کسی کے اندر وہ خوبیاں پہلے سے موجود نہ ہوں صرف سیکھنے سے اس فن میں کمال حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس زمانے میں جہاں مولانا ظفر علی خان اور مولانا ابوالکلام آزاد کا بے حد چرچا تھا وہاں سیّد عطااللہ شاہ بخاری کی خطابت کے لوگ بے حد مداح تھے۔ آغا صاحب کو ان اہم شخصیات کی صحبت سے فیض حاصل ہوا۔ فنِ خطابت کے علاوہ سیّد عطا اللہ شاہ بخاری نے انگریز حکومت کی آمریت کے خلاف ان کو ابھارا اور صرف 16 سال کی عمر میں آغا شورش نے انگریز سامراج کو شاہی مسجد کی پہلی ولولہ انگیز تقریر میں للکارا اور ہزاروں لوگوں سے دادِ شجاعت حاصل کی۔ انگریز حکومت نے اس جواں مرد مجاہد کی تقریر کو ایک باغیانہ فعل قرار دے کر ان کو قید کر دیا۔ گویا کندن بننے کے لئے بھٹی میں ڈالے گئے۔مسجد شہید گنج کے معاملے میں رہنماؤں کی دو رُخی پالیسی سے متنفر ہو کر مجلس احراراسلام میں شمولیت اختیار کر لی کیونکہ یہ جماعت اس زمانے میں انگریزوں کی مخالفت میں پیش پیش تھی۔ اور شورش بھی یہی چاہتے تھے۔ چونکہ سیّد عطا اللہ شاہ بخاری کی خطابت کا پہلے ہی ان پر گہرا اثر تھا اس لئے ان کی تحریک میں انہوں نے پیش پیش رہنا شروع کر دیا اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا ان کا معمول بن گیا۔ اکثر سیّد عطا اللہ شاہ بخاری کہا کرتے تھے کہ اب ان کو کوئی فکر نہیں رہا کہ ان کی تحریک بڑھاپے میں کمزور ہو جائے گی۔ آغا شورش کاشمیری نے زندگی کا اکثر حصہ جیلوں میں گذارا۔ ان کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں، گندگی کے ڈھیروں کی بدبو سے ان کو باز رکھنے کی کوشش کی گئی مگر ان کا راستہ نہ روکا جا سکا۔ دینِ اسلام سے ان کو بے حد لگاؤ تھا۔ انہوں نے اسلام دشمن تنظیموں اور تحریکوں کی بڑھ چڑھ کر مزاحمت کی اور بغیر تلوار کے سوشلزم اور قادیانیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور کبھی کسی موقع پر ان کے قدم نہ ڈگمگائے نہ کسی لالچ میں آئے اور نہ کبھی کسی مخالفت کی پرواہ کی۔ ہر بات کھل کر اور بے باکی سے کرتے تھے۔ عشقِ رسولؐ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قرآن پاک کی تفسیر، سیرت النبیؐ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں کے مطالعے کا بے حد شوق رکھتے تھے۔ سیدھے سادھے مسلمان تھے۔ اللہ تعالیٰ کی واحدنیت پر مکمل یقین اور بھروسہ رکھتے۔ شرک سے نفرت کرتے۔ اور مخلوق کو کسی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے قابل سمجھنا شرک سمجھتے تھے۔ رسالت پر کھل کر ایمان رکھتے اور ختمِ نبوت پر کوئی حرف نہ آنے دیتے تھے۔ سیّد عطا اللہ شاہ بخاری کی وفات پر واشگاف الفاظ میں مرزائیوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ وہ اپنے پیر و مرشد کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ جس پر آگے چل کر عمل کر کے بھی دکھایا۔ چٹان رسالہ کی بندش سے آپ کو مالی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی گئی مگر آ پ نے حوصلہ نہ ہارا۔ ایوب خان کے دورِ حکومت میں بھی آپ نے بہت مصیبتیں جھیلیں، جیلیں کاٹیں اور آخر کار مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوا کر چھوڑا۔ آپ کی زندگی میں ان گنت مصیبتوں کی وجہ سے آپ کا جسم بیماریوں کا آما جگاہ بن گیا اور آخر کار 25 اکتوبر 1975کو اس بطلِ جلیل اور سچے عاشقِ رسول نے اس دارِ فانی کو خیر آباد کہہ دیا اور اللہ تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں جا پہنچے۔ آپ کے جنازے میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور آپ کو لاہور میں سپردِ خاک کیا گیا۔آغا شورش کاشمیری اردو کے ادیب اور شاعر تھے۔ انہوں نے درجنوں کتابیں لکھیں۔ آپ کا "سفر نامہ حج" جو انہوں نے 1969میں بیت اللہ شریف کی زیارت اور مدینہ منورہ کی زیارت کے بارے میں لکھا وہ اس قدر مقبول ہوا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ سفر نامہ حج کا نہ صرف مقدس مقامات کی زیارت سے تعلق ہے بلکہ جو کچھ انہوں نے محسوس کیا اس کو سپردِ قلم کیا۔ لکھتے ہیں "احرام باندھ چکا تو کایا ہی پلٹ گئی محسوس ہوا گویا دنیا ہی دوسری ہے۔ ایک نشہ ایک سرور رگ و ریشہ میں دوڑ گیا۔ لبیک اللھم لبیک کہنا آسان نہیں جب تک دل شرک اور خوف سے دھل نہ جائے"۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران اپنے تاثرات اس طرح قلمبند کئے "یہ مکہ ان زندہ و پائیندہ انسانوں کا گھر ہے جو بظاہر ہم میں نہیں لیکن ہر لحظہ ہم میں ہیں۔ اور جن پر دنیا بھر میں دن میں کئی کئی دفعہ درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔ جس طرح بدلیاں پانی کے ڈول بھر کر چلی آتی ہیں اس طرح کرہ ارض کی ہوائیں ان کے لئے درود و سلام کے گلدستے لے کر آتیں اور لٹا کر لوٹ جاتیں ہیں۔ صدیوں سے صبح و شام یہی ہو رہا ہے"۔ غارِ حرا کو دیکھ کر فرمایا "سلام ہو اے غارِ حرا۔ سلام ہو اے جبلِ نور۔ تو نے رحمت العالمین کو تخلیہ مہیا کیا۔ تو نے ان کی خلوتوں کو گداز پایا۔ تیرے آغوش میں کلامِ الہیٰ کا پہلا بول اترا۔ سلام ہو اے غارِ حرا"۔ اللہ تعالیٰ کے پاک گھر کو دیکھ کر فرمایا "مسجد الحرام اور بیت اللہ میں کسی انسان کے لئے کوئی امتیاز نہیں۔ شاہ و فقیر ایک سے ہیں۔ یہ عشق کا دربار ہے"۔ مدینہ منورہ پہنچ کر یوں کہا "اے رحمتوں اور فضیلتوں کے شہر۔ اے عظیم انسانوں کے سامن۔ اے عابدوں کی جبیں کے ناز۔ اے زاہدوں کی محبت کے محور۔ اے جود و سخا کے مخزن۔ اے حسن و جمال کے مسکن۔ ایک ہیچ مداں اور بے سرو ساماں کا سلام قبول کر"۔آغا شورش کاشمیری کی شخصیت میں اس قدر جاذبیت تھی کہ جو ان کی تقریر ایک فعہ سن لیتا باوجود دوسرے اختلافات کے ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ آپ بیک وقت میں شاعر، ادیب، خطیب، عاشقِ رسول بھی تھے۔ سادگی ان کا شعار تھا، شرافت اور ایمانداری ان کا مسلک تھا۔ اللہ کی ذات پر بھرپور بھروسہ کرتے اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی صبر کا دامن نہ چھوڑتے۔ ایک مخلص انسان ہونے کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی میں ایک بہترین شوہر اور شفیق باپ تھے۔ شفیق دوست اور دشمنوں سے بھی درگذر کرنے والے انسان تھے۔ شعلہ بیان مقرر، بے باک شاعر، سخی، غریبوں مسکینوں کی مدد کرنے والے انسان تھے اور فقیر منش مزاج کے مالک تھے۔