مغربی کنارے کے جنین پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہونے والے فلسطینی تھیٹر اداکار احمد طوباسی صرف 17 سال کے تھے جب انہیں اسرائیلی افواج نے چار سال تک سیاسی قیدی بنا کر رکھا۔شمالی مغربی کنارے کے کیمپ میں پرورش پانے والے طوباسی نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے اثرات کا پہلی بار ذاتی تجربہ کیا اور تھیٹر کے ذریعے دنیا کو ان مظالم سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اب بھی جینن میں رہائش پذیر اور تھیٹر کو بندوق سے زیادہ "طاقتور" ہتھیار کہنے والے 40 سالہ اداکار نے اس جمعہ کو کراچی آرٹس کونسل آف پاکستان میں ایک ڈرامہ پیش کیا جس میں کیمپ میں ان کی زندگی اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی ہولناکیوں کی عکاسی کی گئی تھی۔طوباسی نے اپنی کارکردگی کے بعد عرب نیوز کو بتایا، "خیال یہ ہے کہ فلسطینی داستان کو فلسطین کے ایک حقیقی اداکار کے ساتھ [دنیا تک] لے جایا جائے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ فلسطینی بھی فنکار ہیں۔ ہم تھیٹر کرتے ہیں اور ہم وہی زبان بولتے ہیں جو یہ دنیا بول رہی ہے۔ [دنیا کو] فلسطین کے انسان دکھانا بہت ضروری ہے۔"کراچی میں آرٹس کونسل آف پاکستان میں ورلڈ کلچر فیسٹیول کے دوران ایک فلسطینی تھیٹر اداکار احمد طوباسی 'اور یہ میں ہوں' کے عنوان سے ایک ڈرامہ پیش کر رہے ہیں۔کراچی میں ورلڈ کلچر فیسٹیول 26 ستمبر سے 30 اکتوبر تک جاری ہے اور اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے موسیقی، تھیٹر، رقص اور فنونِ لطیفہ پیش کیے گئے ہیں۔40 سالہ اداکار کہتے ہیں کہ ان کے ڈرامے کو سات سال ہو چکے ہیں اور وہ اسے فلسطین، برطانیہ، ناروے، فرانس اور متحدہ عرب امارات سمیت ایک درجن سے زائد ممالک میں پیش کر چکے ہیں۔طوباسی نے کراچی میں سامعین کی بڑی تعداد کے سامنے عربی میں ڈرامہ پیش کیا جس کے پس منظر میں انگریزی میں سب ٹائٹلز چلائے گئے۔انہوں نے کہا، "کراچی میں عالمی ثقافتی میلے کا حصہ بننا اعزاز کی بات ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور فلسطین کے درمیان ایک بہت ہی منفرد اور خصوصی رشتہ ہے۔"پاکستان ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور "بین الاقوامی طور پر متفقہ معیارات" کی بنیاد پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتا ہے۔طوباسی نے اسرائیلی حراست سے رہائی کے بعد جنین پناہ گزین کیمپ میں فریڈم تھیٹر میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد 21 سال کی عمر میں پرفارم کرنا شروع کیا۔ بعد میں وہ ناروے چلے گئے جہاں انہوں نے اوسلو میں نارڈک بلیک تھیٹر سے تربیت حاصل کی اور اس کے ساتھ کام کیا۔ فریڈم تھیٹر میں اپنے ڈرامہ کوچ جولیانو مر-خمیس کے قتل کے بعد وہ 2013 میں جینن واپس آ گئے۔ وہ اس وقت تھیٹر میں آرٹسٹک ڈائریکٹر ہیں۔ کراچی میں آرٹس کونسل آف پاکستان میں ورلڈ کلچر فیسٹیول کے دوران ایک فلسطینی تھیٹر اداکار احمد طوباسی 'اور یہ میں ہوں' کے عنوان سے ایک ڈرامہ پیش کر رہے ہیں۔انہوں نے عرب نیوز کو بتایا، "میں تمام لوگوں کو بتانے کی امید کرتا ہوں کہ تھیٹر اور ثقافت ایک بہت طاقتور ہتھیار ہے۔ اگر ہم اظہار کرنا، بات کرنا اور بحث کرنا چاہتے ہیں تو آرٹ ہی راستہ ہے۔طوباسی کی زندگی کی کہانی 'اور یہ میں ہوں' جسے ایوارڈ یافتہ عراقی ڈرامہ نگار حسن عبدالرزاق نے لکھا ہے، نے 2019 میں شرم الشیخ انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول میں بہترین پروڈکشن کا ایوارڈ بھی جیتا ہے۔ اس پروڈکشن میں حقیقت اور تصور اور المیہ اور مزاح کا امتزاج ہے۔ڈرامے کی برطانوی ہدایت کارہ زو لافرٹی نے عرب نیوز کو بتایا، "طوباسی بہت مشکل چیزیں پیش کرتے ہیں مثلاً اپنے دوستوں [اور] اپنے استاد جولیانو کا قتل لیکن وہ مزاح بھی لاتے [اور] رقص کرتے ہیں۔ اس لیے اس میں ہلکے اور خوشگوار لمحات بھی آتے ہیں۔"لافرٹی گذشتہ 15 سالوں سے فلسطین سے باہر طوباسی اور ان کی تھیٹر پروڈکشن ٹیم کے ساتھ کام کر رہی ہیں کیونکہ ان کے مطابق "اسرائیلی انہیں فلسطینی سرزمین میں داخل نہیں ہونے دیں گے.انہوں نے سنسر شپ کے معاملے میں "بڑے چیلنجوں" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "ہمیں دوسرے ممالک میں واقعی اچھی کامیابی ملی ہے لیکن ساتھ ہی ہمارا ڈرامہ بہت سے ممالک میں منسوخ کر دیا گیا۔ ہمیں اگلے ہفتے جرمنی جانا تھا لیکن پروڈکشن منسوخ کر دی گئی۔ فرانس میں ایک شو منسوخ ہو گیا لیکن دورہ جاری رہا۔ سنگاپور میں شو منسوخ ہو گئے۔طوباسی کے لیے ذاتی کہانیاں سنانا "انتہائی اہم" ہے جو لوگوں کو قریب لاتی ہیں۔40 سالہ اداکار نے عرب نیوز کو بتایا، "جب وہ اپنے سامنے ایک حقیقی کہانی دیکھتے ہیں تو ان کی تمام سوچ سوال کرتی ہے اور بدل جاتی ہے۔ لوگ فلسطینیوں کی کہانی کے زیادہ قریب اور ان کے لیے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں کیونکہ مغرب، امریکہ [اور] یورپ نے ہماری اصلیت کو پوشیدہ رکھتے ہوئے غیر انسانی بنا دیا ہے اور ہمیں ہمیشہ دہشت گرد، مسلم، عرب اور فلسطینی کے طور پر پیش کیا ہے۔