دو ماہ تک تعطل کے بعد قطر میں امریکی، مصری اور اسرائیلی کوششوں سے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کےحوالے سے پر مذاکرات دوبارہ شروع ہو رہے ہیں۔ ایک باخبر اہلکار نے رائیٹرز کو بتایا کہ ’سی آئی اے‘ کے ڈائریکٹر ولیم برنز، اسرائیلی موساد کے سربراہ اور قطری وزیر اعظم آج اتوار کو دوحہ میں ملاقات کریں گے تاکہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نئے قلیل مدتی معاہدے تک پہنچنے کے لیے بات چیت شروع کی جا سکے۔اہلکار نے مزید کہا کہ بات چیت کا مقصد اسرائیل اور حماس کو غزہ کی پٹی میں کم سے کم ایک ماہ کے عرصے کے لیے جنگ بندی پر راضی کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ان کوششوں سے پائیدار معاہدہ ہو سکے گا۔اہلکار کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے تحت رہا کیے جانے والے یرغمالیوں اور قیدیوں کی تفصیلات یا تعداد ابھی واضح نہیں ہے۔
'دردناک رعایتیں'
اس تناظر میں اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گلینٹ نے اتوار کو کہا کہ غزہ کی پٹی میں یرغمالیوں کی واپسی کو محفوظ بنانے کے لیے "تکلیف دہ رعایتیں" دی جانی چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف فوجی کارروائیوں سے جنگ کے مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔سات اکتوبر2023ء کےحملے کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب گیلنٹ نے زور دیا کہ "تمام اہداف صرف فوجی کارروائیوں سے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔یرغمالیوں کی واپسی کے لیے ہمیں اپنا اخلاقی فرض پورا کرنا ہوگا۔ تاکہ وہ اپنے گھروں تک واپس آ سکیں۔ اس کے لیے ہمیں تکلیف دہ رعاتیں دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی مذاکرات گذشتہ اگست میں اس وقت تعطل کا شکار ہوگئے تھے جب اسرائیل نے غزہ کے مصرسے متصل علاقے ’فلاڈیلفیا کوریڈور‘ سے فوج نکالنے سے انکارکردیا تھا۔ مصر اورحماس دونوں کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل غزہ کے اس علاقے سے اپنی فوج فوری واپس بلائے۔ان مذاکرات کی ناکامی کی ایک وجہ اسرائیل کے ان قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے تحفظات تھے جن کی رہائی کے لیے اسرائیل نے نئی شرائط بھی رکھی تھیں۔غزہ مذاکرات کی بحالی کے اعلان کے ساتھ ہی اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ آج تل ابیب میں تقریبات اور ریلیوں کا اہتمام کر رہے ہیں تاکہ وزیر اعظم نیتن یاہو سے مذاکراتی ٹیم کو دوحہ میں کسی معاہدے تک پہنچنے کا اختیار دینے کا دباؤ ڈالا جا سکے۔