آج کل نیویارک میں اقوام متحدہ کی سرگرمیاں پورے جوبن پر نظر آ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ میں صدر امریکہ کے خطاب کے موقع پر صدر پاکستان کی غیر موجودگی سفارتی حلقوں میں خاصی باعث تشویش رہی۔ ویسے بھی صدر زرداری کا حالیہ دورہ کافی پراسرار لگ رہا ہے انکے ساتھ اے این پی کے اسفند یار ولی خان امریکی انتظامیہ میں کافی گھلتے ملتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ صوبہ سرحد کے معاملات میں امریکی دلچسپی نمایاں ہے وہ اے این پی کے کندھے استعمال کر کے اپنے مقاصد پورے کرنے کا جتن کر رہا ہے امریکی ادارے صوبہ سرحد کی سرکار کے لئے مختلف مراعات کیلئے اسفند یار ولی خان سے مشاورت بھی کر رہے ہیں۔
اس دفعہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں سوجھے ہوئے چہرے کیساتھ لیبیا کے صدر کرنل قذافی نے کافی شور شرابہ کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب کے درمیان اقوام متحدہ کے منشور کو پھاڑا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے غصہ کا اظہار کیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر مسلمان ممالک کی جانب سے عدم اعتماد کا برملا اظہار بھی کیا۔ انکی تقریر خاصی جذباتی تھی۔ ان کے بعد زیادہ توجہ حاصل کرنیوالے ایرانی صدر تھے جو امریکی سرزمین پر امریکہ سے دوستی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی مفادات پر تنقید بھی کرتے ہیں اس دفعہ بھی اسلامی ممالک میں کوئی یک جہتی اور باہمی مفاد کیلئے کوئی مؤثر کردار نظر نہیں آ رہا۔
ہمارے حلیف اور عظیم دوست امریکہ بہادر کو پاکستان کی بہت ہی فکر ہے۔ آئے دن اس کا کوئی نہ کوئی ہرکارہ اس دوستی اور تعلق کو مضبوط تر بنانے کیلئے جائزہ گروپ کے روپ میں پاکستان کے طول و عرض میں گھومتا نظر آتا ہے۔ اسکی مہمان داری پس پردہ ہماری نوکر شاہی کر رہی ہوتی ہے۔ اس جائزہ گروپ کا ہمارے سفیر برائے حسین حقانی سے بہت تعلق خاطر ہوتا ہے۔ اس دفعہ بھی سفیر پاکستان نے صدر زرداری کے پروگرام کو خاصا مخفی رکھا ہوا ہے۔ صدر پاکستان کی مصروفیت کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا مشکل لگ رہی ہے۔
صدر زرداری کی غیر سرکاری مصروفیت میں اہم معاملہ ان کا طبی معائنہ تھا۔ ایک امریکی صحافی اقوام متحدہ کے کیفے ٹیریا میں مجھ سے پوچھ رہا تھا تمہارے صدر کی صحت تو بہت ٹھیک ٹھاک لگ رہی ہے پھر اس چیک اپ کی کیا ضرورت تھی اور پھر خود ہی اس نے جواب بھی دیا۔ ’’ شاید کسی پرانی پراسرار بیماری کے بارے میں تشویش ہو کیونکہ آج کل تمہارے سابق صدر جنرل مشرف بھی امریکی میزبانی کا لطف اٹھا رہے ہیں اور ہو سکتا ہے دونوں کسی باہمی مفاد کے کارن بیک ڈور ڈپلومیسی کیلئے سرگرم ہوں‘‘ میرے لئے یہ اطلاع کوئی نئی نہیں تھی۔ صدر زرداری کی مشاورت اس وقت سفیر پاکستان اور وزیر خارجہ کر رہے ہیں مگر اب وزیر داخلہ بھی اہم حیثیت میں صدر پاکستان کی معاونت کیلئے انکے ہم رکاب ہیں۔ امریکی ہمارے وزیر داخلہ کے کردار سے بہت مطمئن نظر آتے ہیں۔ وزیر داخلہ کے آنے کے بعد سفیر حسین حقانی اتنے زیادہ نمایاں نظر نہیں آ رہے۔
صدر پاکستان کے دورہ امریکہ کے موقع پر امریکی امداد کا بل بھی منظور کروایا گیا ہے صدر کی ٹیم اس بات پر بہت ہی مسرور اور شاداں نظر آتی ہے مگر کوئی بھی یہ حقیقت بتانے کو تیار نہیں کہ فقط بل کی منظوری سے پاکستان کی قسمت بدل نہیں سکتی۔ اس بل کی شرائط کیلئے امریکی انتظامیہ کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ وہ معاملہ زیادہ اہم ہے۔ صدر پاکستان کے وفد کے زیادہ لوگ تنظیم احباب پاکستان کے سلسلہ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان سب کو یقین ہے کہ اس دفعہ احباب پاکستان امریکی دباؤ کی وجہ سے معقول حد تک رقم کی فراہمی یقینی بنائینگے مگر یہ سب اندازے اور خیال ہیں۔ احباب پاکستان فورم کیلئے جتنی رقم نیویارک میں خرچ ہو رہی ہے اگر وہ رقم ہی پاکستان کو دیدی جائے تو ہمارا کشکول خاصا بھاری ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں صدر امریکہ کی شخصیت بڑی کرشماتی نظر آئی۔ ویسا ہی کرشماتی روپ ایرانی صدر اور لیبیا کے کرنل قذافی کا نظر آیا۔ ان لوگوں نے امریکی سرزمین پر اپنا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کیا۔ اگرچہ مقامی میڈیا نے اس بات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی مگر انکی زیادہ نہیں چل سکی۔ نیویارک میں ٹریفک کی حالت بہت ہی خراب ہے۔ کئی سڑکیں بند ہیں لوگ اس معاملہ پر برملا تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ صدر اوبامہ کی تقریر کے موقع پر سابق جنرل مشرف بھی اقوام متحدہ میں انکی تقریر سننے کیلئے موجود ہونگے۔ امریکی انتظامیہ کیمطابق صدر مشرف کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کی عمارت میں ایک مبصر کی حیثیت میں آ سکتے ہیں مگر انکو اہم حیثیت دینا امریکی مفاد میں نہیں ہے۔ انکے مقامی پروموٹرز ڈاکٹر نسیم اشرف نے بھی خاصی کوشش کی مگر ان کو بھی مایوس کر دیا گیا۔ صدر زرداری اس دورہ کے دوران کسی وقت بھی جنرل مشرف کیساتھ اہم ملاقات کر سکتے ہیں۔ اسکے بارے میں باخبر حلقے لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں مگر ایک بات بہت زیادہ گردش کر رہی ہے کہ اگر صدر زرداری نے سابق صدر مشرف کے بارے میں کمزوری دکھائی تو سابق صدر اپنے بچاؤ کیلئے وہ تمام کارروائی میڈیا کو پیش کر دینگے جس میں جنرل مشرف اور بے نظیر کی ملاقات اور معاہدے کی تفصیلات ہیں، جس سے دونوں فریق کمزور ہو سکتے ہیں۔ صدر زرداری کیساتھ وفد میں غیر سرکاری لوگ بھی کافی نمایاں ہیں اگر ان سے صدر کی مصروفیات کا معلوم کیا جائے تو ان کے پاس ایک ہی جواب ہے۔ صدر اپنے پرانے دوستوں سے ملنے اور پرانی محفلوں کی یاد تازہ کرنے کیلئے کچھ وقت ضرور نکالیں گے‘ اس دورہ میں صدر زرداری امریکہ کیساتھ ابھی تک سخت مؤقف اختیار کئے ہوئے ہیں جو پاکستان کے مفاد میں اہم ہے۔