ڈاکٹر اختر شمار ۔۔۔
چینی کا میٹھا موضوع زیر بحث تھا ۔ ایک دوست فرما رہے تھے ، ”میڈیکل سائنس نے چینی کو انسان کے لیے مہلک قرار دے کر اسے ”سفےد زہر“ کا نام دیا ہے، سو اس کا استعمال کم کرنا چاہیے۔“ دوسرے صاحب نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ”چینی کی بجائے ہمیں ”براﺅن شوگر“ استعمال کرنی چاہیے، بلکہ گڑ اور شکر کا ستعمال زیادہ سود مند ہے“ ایک اور دوست نے بھی ہاں میں ہاں ملائی کہ ”ویسے بھی اب سفےد چینی ”بلیک“ ہونے لگی ہے بہتر ہے ”بلیک چینی“ کی بجائے گڑ کھا لیا جائے کیونکہ سفید چینی سے ”خون سفےد“ ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے ۔ اس پر محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ ہمیں اپنے دوستوں سے سو فےصد اتفاق ہے۔ گڑ کے چاول اور سویّاں، چینی سے زیادہ لذیذ ہو تی ہیں اور اب اگر سبھی لوگ چینی کے لیے قطاروں میں لگنے لگےں گے تو یہ جنس مزید نایاب ہو جائے گی سو اپنے وزیر کا مشورہ ہی مان لیا جائے اور چینی کا استعمال تر ک کر دیا جائے۔ بھئی چینی کے وجود سے قبل یہی گڑ شکر اور گنے کا شیرہ میٹھے کے کام آتا تھا اور اب تو ”شوگر“ کی بیماری بھی ”دہشت گردی“ کی طرح عام ہو چکی ہے اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ غرےب عوام نجانے کیوں چینی کے لیے دھکے کھاتے ہیں۔ آٹے کے لیے قطاروں میں ”مرنا“ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن چینی کے لیے اتنی ” بے چینی“ ہماری قوم کے شایانِ شان نہیں اور ویسے بھی میٹھی عید پر ضروری نہیں کہ میٹھے پکوان ہی پکائے جائیں، وقت اور ضرورت کے مطابق اپنے پکوان تبدیل بھی کر لینے چاہئیں مثلاً نمازِ عید کے بعد سویّاں کھانے کی بجائے گاجر یا شکرقندی کی کوئی ڈش بھی تو استعمال کی جا سکتی ہے۔ دال ساگ کو تڑکا لگا کر کھایا جا سکتا ہے، سویوں میں چینی نہ ملے تو گنے کا رس ڈال کر کام چلایا جا سکتا ہے اور کبھی کبھی نمکین سویّاں بھی بنا لینی چاہئیں۔ اگر چینی آسانی سے مارکیٹ میں لائی جا سکتی تو شہباز شرےف ہی لے آتے۔ وفاقی حکومت نے بھی اگر عدالت کے مقرر کردہ نرخوں پر عمل درآمد کرانے سے معذوری ظاہر کر دی ہے تو آ خر کوئی تو ”ٹھوس وجہ“ ہوگی ورنہ اپنی حکومت کے قانون پر عمل درآمد کرانے میں آخر کون سی حکومت ”لیت و لعل“ سے کام لے سکتی ہے۔ یہ انتہائی ” سنجیدہ“ مسئلہ ہے۔ اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ صاحب نے ٹیکنیکل وجوہات بھی پیش کر دی ہیں۔ عوام کو اپنی ”حکومت“ کی مجبوری سمجھنا چاہیے اور پارلیمنٹ کی نیت پر شک نہیں کر نا چاہیے۔ اب خدانخواستہ پارلیمنٹ کے ممبران نے تو چینی کا ”چھابہ“ نہیں لگاےا ہوا ناں کہ انہیں عدالت کے مقرر کردہ نرخوں پر چینی فروخت کرنے سے کوئی گھاٹا پڑنے کا اندیشہ ہے؟ یہ ایک قومی مسئلہ ہے جسے وزیراعظم صاحب نے انتہائی زیرکی سے حل کیا ہے اور اس کے لیے چاروں صوبوں کے وزرائی اعلیٰ کو اعتماد میں لے کر سپریم کورٹ میں اپنی مجبورےاں پیش کر دی ہیں۔ انشاءاللہ اس پر مستحسن فیصلہ سامنے آئے گا اور فیصلہ جو بھی ہوا، حکومت بھی ”اپنے شوگر مالکان“ سمیت اس فیصلے پر عمل کرے گی۔ اب ایسے موقعوں پر عوام اور میڈیا کو صبر کرنا چاہیے اور خواہ مخواہ ”رولا“ نہیں ڈالنا چاہیے۔ اب یہ کوئی بات ہے کہ آپ موبائلوں پر حکومت کو ”شوگر“ کا مرض لاحق ہو نے کی ”افواہیں“ پھیلانے لگےں۔ یہ کاہے کا مذاق اور تفرےح ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری قوم کو شوگر کی مر ض سے بچائے۔ دیکھیں، عالمی مارکیٹ میں اگر چینی کی قیمت بڑھ گئی ہے تو ہمارے شوگر ملز مالکان کو بھی حق ہے کہ وہ اپنی چینی کا رےٹ بڑھا دیں۔ توقع ہے کہ چین بھی چینی کے لیے ہماری مدد کرے گا کیوں کہ چین ہمارا قرےبی دوست ہے اور چینی ہمارے بھائی ہیں اور صدر سب سے زیادہ دورے بھی چین ہی کے کرتے ہیں اور انشاءاللہ جلد ہی آپ دیکھیں گے، امریکی نئیں ۔ ”چینی زندہ باد“ کے نعرے لگ رہیں ہوںگے۔
چینی کا میٹھا موضوع زیر بحث تھا ۔ ایک دوست فرما رہے تھے ، ”میڈیکل سائنس نے چینی کو انسان کے لیے مہلک قرار دے کر اسے ”سفےد زہر“ کا نام دیا ہے، سو اس کا استعمال کم کرنا چاہیے۔“ دوسرے صاحب نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ”چینی کی بجائے ہمیں ”براﺅن شوگر“ استعمال کرنی چاہیے، بلکہ گڑ اور شکر کا ستعمال زیادہ سود مند ہے“ ایک اور دوست نے بھی ہاں میں ہاں ملائی کہ ”ویسے بھی اب سفےد چینی ”بلیک“ ہونے لگی ہے بہتر ہے ”بلیک چینی“ کی بجائے گڑ کھا لیا جائے کیونکہ سفید چینی سے ”خون سفےد“ ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے ۔ اس پر محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ ہمیں اپنے دوستوں سے سو فےصد اتفاق ہے۔ گڑ کے چاول اور سویّاں، چینی سے زیادہ لذیذ ہو تی ہیں اور اب اگر سبھی لوگ چینی کے لیے قطاروں میں لگنے لگےں گے تو یہ جنس مزید نایاب ہو جائے گی سو اپنے وزیر کا مشورہ ہی مان لیا جائے اور چینی کا استعمال تر ک کر دیا جائے۔ بھئی چینی کے وجود سے قبل یہی گڑ شکر اور گنے کا شیرہ میٹھے کے کام آتا تھا اور اب تو ”شوگر“ کی بیماری بھی ”دہشت گردی“ کی طرح عام ہو چکی ہے اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ غرےب عوام نجانے کیوں چینی کے لیے دھکے کھاتے ہیں۔ آٹے کے لیے قطاروں میں ”مرنا“ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن چینی کے لیے اتنی ” بے چینی“ ہماری قوم کے شایانِ شان نہیں اور ویسے بھی میٹھی عید پر ضروری نہیں کہ میٹھے پکوان ہی پکائے جائیں، وقت اور ضرورت کے مطابق اپنے پکوان تبدیل بھی کر لینے چاہئیں مثلاً نمازِ عید کے بعد سویّاں کھانے کی بجائے گاجر یا شکرقندی کی کوئی ڈش بھی تو استعمال کی جا سکتی ہے۔ دال ساگ کو تڑکا لگا کر کھایا جا سکتا ہے، سویوں میں چینی نہ ملے تو گنے کا رس ڈال کر کام چلایا جا سکتا ہے اور کبھی کبھی نمکین سویّاں بھی بنا لینی چاہئیں۔ اگر چینی آسانی سے مارکیٹ میں لائی جا سکتی تو شہباز شرےف ہی لے آتے۔ وفاقی حکومت نے بھی اگر عدالت کے مقرر کردہ نرخوں پر عمل درآمد کرانے سے معذوری ظاہر کر دی ہے تو آ خر کوئی تو ”ٹھوس وجہ“ ہوگی ورنہ اپنی حکومت کے قانون پر عمل درآمد کرانے میں آخر کون سی حکومت ”لیت و لعل“ سے کام لے سکتی ہے۔ یہ انتہائی ” سنجیدہ“ مسئلہ ہے۔ اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ صاحب نے ٹیکنیکل وجوہات بھی پیش کر دی ہیں۔ عوام کو اپنی ”حکومت“ کی مجبوری سمجھنا چاہیے اور پارلیمنٹ کی نیت پر شک نہیں کر نا چاہیے۔ اب خدانخواستہ پارلیمنٹ کے ممبران نے تو چینی کا ”چھابہ“ نہیں لگاےا ہوا ناں کہ انہیں عدالت کے مقرر کردہ نرخوں پر چینی فروخت کرنے سے کوئی گھاٹا پڑنے کا اندیشہ ہے؟ یہ ایک قومی مسئلہ ہے جسے وزیراعظم صاحب نے انتہائی زیرکی سے حل کیا ہے اور اس کے لیے چاروں صوبوں کے وزرائی اعلیٰ کو اعتماد میں لے کر سپریم کورٹ میں اپنی مجبورےاں پیش کر دی ہیں۔ انشاءاللہ اس پر مستحسن فیصلہ سامنے آئے گا اور فیصلہ جو بھی ہوا، حکومت بھی ”اپنے شوگر مالکان“ سمیت اس فیصلے پر عمل کرے گی۔ اب ایسے موقعوں پر عوام اور میڈیا کو صبر کرنا چاہیے اور خواہ مخواہ ”رولا“ نہیں ڈالنا چاہیے۔ اب یہ کوئی بات ہے کہ آپ موبائلوں پر حکومت کو ”شوگر“ کا مرض لاحق ہو نے کی ”افواہیں“ پھیلانے لگےں۔ یہ کاہے کا مذاق اور تفرےح ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری قوم کو شوگر کی مر ض سے بچائے۔ دیکھیں، عالمی مارکیٹ میں اگر چینی کی قیمت بڑھ گئی ہے تو ہمارے شوگر ملز مالکان کو بھی حق ہے کہ وہ اپنی چینی کا رےٹ بڑھا دیں۔ توقع ہے کہ چین بھی چینی کے لیے ہماری مدد کرے گا کیوں کہ چین ہمارا قرےبی دوست ہے اور چینی ہمارے بھائی ہیں اور صدر سب سے زیادہ دورے بھی چین ہی کے کرتے ہیں اور انشاءاللہ جلد ہی آپ دیکھیں گے، امریکی نئیں ۔ ”چینی زندہ باد“ کے نعرے لگ رہیں ہوںگے۔