رات گئے، پیر سائیں صف مریدان ’سر صفا‘ کا معائنہ کرنے بزم ناز میں طلوع ہوئے تو ایک سر، بھویں، مونچھیں اور داڑھی منڈے درویش کو دھمال ڈالتے دیکھ کر چونک اٹھے، انہوں نے ایسے درویشوں کے گروہوں کا حال کتابوں میں تو پڑھ رکھا تھا مگر ایک ایسا درویش اس زمانے میں پہلی بار دیکھتے ہوئے اسے اپنی نگاہ میں آنے والے پہلے ’چہار ابرو صفا درویش‘ کے درجے پر فائز کرتے چلے جا رہے تھے! ’حضرت! تشریف فرمائیں!‘ پیر سائیں نے بہت احترام کے ساتھ حکم صادر فرمایا تو وہ درویش بھی ’سہ‘ آتے ہی وہیں فرش نشین ہو گیا!
اب ہر طرف خاموشی کا راج تھا کہ پیر سائیں نے پیراہن اظہار کا پہلا بند یوں کھولا، ’حق تو یہ ہے کہ حقانیوں کے ساتھ ہمارے رابطے بھی امریکہ اور برطانیہ کی طرح صرف مکالمے کی حد تک تھے مگر ہمارے رابطوں کو بڑھا چڑھا کر کابل میں امریکی سفارت خانے اور نیٹو ہیڈ کوارٹرز پر حملوں سے جوڑ دیا گیا! یہ صریحاً زیادتی تھی، ہم بھی حقانیوں پر امریکا پروردہ ہونے کا الزام لگا سکتے تھے! مگر اس کا فائدہ؟ پیر سائیں نے مجمع پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا مگر ہر طرف چھائی خاموشی، نیم رضا کے درجے پر فائز کرتے ہوئے انہوں نے ہاتھ پیراہن اظہار کا دوسرا بند کھولنا شروع کر دیا کہ ’ہمیں ایک دوسرے پر الزام دھرنے سے گریز کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے اور افغانستان میں ’امن‘ اور ’مفاہمت‘ کے لئے اشتراک کار، جاری رکھنے کے عزم کی تجدید کرنا چاہئے!‘
یہ بات صرف چہار ابرو صفا درویش ہی جانتا تھا کہ پیر سائیں یہ بیان سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز میٹس اور پاک بریہ کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ملاقات کے بعد جاری فرما رہے ہیں اور پیر سائیں پاک۔ امریکہ تعلقات میں جنم لے لینے والی ’حدت‘ کی دہشت کم کرنے کی غرض سے لب کشائی کا یہ ٹھہرا ٹھہرا انداز اپنا رہے ہیں!
پیر سائیں نے درویش کی آنکھوں میں جھانکا تو اس کا ذہن پڑھ لیا اور فرمایا کہ ہم کسی سے جھگڑا نہیں چاہتے! ہم پاک ۔ امریکا تزویراتی شراکت داری پر قائم ہیں! دہشت گردی کے خاتمہ پاکستان اور افغانستان کے لئے استحکام کا پیام ثابت ہو گا! ہم امریکہ کے ساتھ ساتھ مستقبل کے ”پرامن افغانستان“ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں!‘
’جہاں تک اچھے تعلقات کا تعلق ہے!‘ پیر سائیں نے پیراہن اظہار کا تیسرا بند کھولنا شروع ہی کیا تھا کہ ہم محفل ناز میں پیراہن اظہار کا آخر میں بند کھلنے کے منظر کا تصور سے ہی کانپ گئے اور جوتیاں اٹھا کر پیر خانے سے سیدھے بھنگڑ خانے جا دھمکے! چنڈال چوکڑی پاکستان کے ایثار کی امریکی تذلیل پر نوحہ گر تھی۔ جناب جارج بش کے ساتھ ساتھ جناب پرویز مشرف کی عقل سلیم پر بھی ماتم کناں تھی!
ہم نے ان کی تسلی اور جمعیت خاطر کے لئے لب کھولے تو انہوں نے جناب پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی پھکڑوں پر لے لیا اور وہ وہ پھکڑ تولے کہ ہم بھی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے! ان پڑھ فلسفی کے آگے کون منہ کھولے؟ ہم نے سوچا اور سیدھے بیٹھک آ کر دم لیا! چائے کا کہا اور دائیں بائیں دیکھا تو جناب رفیق غوری کو غائب پا کر ان کا نمبر ڈائل کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف ’ڈینگی‘ کے خلاف ’مزاحمت‘ میں مصروف ہیں! ڈینگی کا نام سنتے ہی ہمارے پیروں تلے کی زمین نکل گئی اور ہم ’چہار ابرو صفا درویش‘ کی طرح زمین بوس ہو گئے!
’مولانا! کچھ دو دارو بھی کی؟ ہم نے پوچھ تو بولے ’اللہ بھلا کرے گا!‘ ہم نے ٹیلی فون بند کیا اور سیدھے مرد مجید جمہوریت نشاں محترمی و مکرمی جناب مجید نظامی کے در پر حلقہ زن ہو گئے کہ ’حضرت اپنے دوست کی خبر لیں!‘ اور مطمئن ہو گئے کہ اب وہ جانیں اور جناب رفیق غوری جانیں! دوا دارو ہر کسی کے بس کی بات نہیں! خاص طور پر ان حالات میں تو مریض کوئی اور نہیں جناب رفیق غوری ہوں! جنہیں دوا پلانا ایک کارے دارد ہو!
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کا نگہبان ہو اور اپنے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ڈینگی کے تمام مریضوں کو صحت یابی ارزاں فرمائے! آمین! اور پاک۔ امریکہ تعلقات کی مدت میں کمی لائے! ثم آمین!
اب ہر طرف خاموشی کا راج تھا کہ پیر سائیں نے پیراہن اظہار کا پہلا بند یوں کھولا، ’حق تو یہ ہے کہ حقانیوں کے ساتھ ہمارے رابطے بھی امریکہ اور برطانیہ کی طرح صرف مکالمے کی حد تک تھے مگر ہمارے رابطوں کو بڑھا چڑھا کر کابل میں امریکی سفارت خانے اور نیٹو ہیڈ کوارٹرز پر حملوں سے جوڑ دیا گیا! یہ صریحاً زیادتی تھی، ہم بھی حقانیوں پر امریکا پروردہ ہونے کا الزام لگا سکتے تھے! مگر اس کا فائدہ؟ پیر سائیں نے مجمع پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا مگر ہر طرف چھائی خاموشی، نیم رضا کے درجے پر فائز کرتے ہوئے انہوں نے ہاتھ پیراہن اظہار کا دوسرا بند کھولنا شروع کر دیا کہ ’ہمیں ایک دوسرے پر الزام دھرنے سے گریز کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے اور افغانستان میں ’امن‘ اور ’مفاہمت‘ کے لئے اشتراک کار، جاری رکھنے کے عزم کی تجدید کرنا چاہئے!‘
یہ بات صرف چہار ابرو صفا درویش ہی جانتا تھا کہ پیر سائیں یہ بیان سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز میٹس اور پاک بریہ کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ملاقات کے بعد جاری فرما رہے ہیں اور پیر سائیں پاک۔ امریکہ تعلقات میں جنم لے لینے والی ’حدت‘ کی دہشت کم کرنے کی غرض سے لب کشائی کا یہ ٹھہرا ٹھہرا انداز اپنا رہے ہیں!
پیر سائیں نے درویش کی آنکھوں میں جھانکا تو اس کا ذہن پڑھ لیا اور فرمایا کہ ہم کسی سے جھگڑا نہیں چاہتے! ہم پاک ۔ امریکا تزویراتی شراکت داری پر قائم ہیں! دہشت گردی کے خاتمہ پاکستان اور افغانستان کے لئے استحکام کا پیام ثابت ہو گا! ہم امریکہ کے ساتھ ساتھ مستقبل کے ”پرامن افغانستان“ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں!‘
’جہاں تک اچھے تعلقات کا تعلق ہے!‘ پیر سائیں نے پیراہن اظہار کا تیسرا بند کھولنا شروع ہی کیا تھا کہ ہم محفل ناز میں پیراہن اظہار کا آخر میں بند کھلنے کے منظر کا تصور سے ہی کانپ گئے اور جوتیاں اٹھا کر پیر خانے سے سیدھے بھنگڑ خانے جا دھمکے! چنڈال چوکڑی پاکستان کے ایثار کی امریکی تذلیل پر نوحہ گر تھی۔ جناب جارج بش کے ساتھ ساتھ جناب پرویز مشرف کی عقل سلیم پر بھی ماتم کناں تھی!
ہم نے ان کی تسلی اور جمعیت خاطر کے لئے لب کھولے تو انہوں نے جناب پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی پھکڑوں پر لے لیا اور وہ وہ پھکڑ تولے کہ ہم بھی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے! ان پڑھ فلسفی کے آگے کون منہ کھولے؟ ہم نے سوچا اور سیدھے بیٹھک آ کر دم لیا! چائے کا کہا اور دائیں بائیں دیکھا تو جناب رفیق غوری کو غائب پا کر ان کا نمبر ڈائل کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف ’ڈینگی‘ کے خلاف ’مزاحمت‘ میں مصروف ہیں! ڈینگی کا نام سنتے ہی ہمارے پیروں تلے کی زمین نکل گئی اور ہم ’چہار ابرو صفا درویش‘ کی طرح زمین بوس ہو گئے!
’مولانا! کچھ دو دارو بھی کی؟ ہم نے پوچھ تو بولے ’اللہ بھلا کرے گا!‘ ہم نے ٹیلی فون بند کیا اور سیدھے مرد مجید جمہوریت نشاں محترمی و مکرمی جناب مجید نظامی کے در پر حلقہ زن ہو گئے کہ ’حضرت اپنے دوست کی خبر لیں!‘ اور مطمئن ہو گئے کہ اب وہ جانیں اور جناب رفیق غوری جانیں! دوا دارو ہر کسی کے بس کی بات نہیں! خاص طور پر ان حالات میں تو مریض کوئی اور نہیں جناب رفیق غوری ہوں! جنہیں دوا پلانا ایک کارے دارد ہو!
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کا نگہبان ہو اور اپنے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ڈینگی کے تمام مریضوں کو صحت یابی ارزاں فرمائے! آمین! اور پاک۔ امریکہ تعلقات کی مدت میں کمی لائے! ثم آمین!