لاہور (سپیشل رپورٹر+ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ) عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے سیزفائر اور طالبان کا دفتر کھولنا ضروری ہے‘ جب تمام جماعتوں نے اتفاق کر لیا ہے تو حکومت طالبان سے مذاکرات کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ پاکستان دشمن قوتیں پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات نہیں چاہتیں‘ قبائلیوں کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں‘ 2004ءمیں بھی مذاکرات ہو چکے تھے مگر مشرف نے حملہ کر کے پاکستان کو پھنسا دیا اور آج تک اسی فوجی آپریشن کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں‘ پاکستان کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں‘ فوجی آپریشن سے مسائل میں کمی نہیں اضافہ ہوتا ہے‘ 9 برس میں طاقت کے استعمال سے دہشت گردی میں کمی نہیں اضافہ ہوا ہے۔ پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں عمران نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات پر اتفاق کیا لیکن اس کے باوجود حکومت نے ابھی تک طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی واضح نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے جب طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا تو سب سے پہلے طالبان کا دفتر کھولا گیا۔ مذاکرات اخبارات کے بیانوں سے نہیں ہوتے بلکہ اس کیلئے باقاعدہ حکمت عملی بنانا ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے ماضی میں کبھی بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ فوجی آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں پوری قوم امن چاہتی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں ملک تباہ ہو گیا۔ مذاکرات دشمنوں سے کئے جاتے ہیں دوستوں سے نہیں، طالبان سے مذاکرات کرنا تمام جماعتوں کا فیصلہ ہے، تین سالوں میں 4 اے پی سی ہوئیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نو سال سے کہہ رہے ہیں امن قائم کیا جائے۔ کراچی سے خیبر پی کے تک صنعت تباہ ہو گئی، ملک دشمن عناصر چاہتے ہیں کہ امن نہ ہو، مذاکرات کا طریقہ کار طے کیا جائے۔ مذاکرات آئین کے اندر رہ کر ہونے چاہئیں۔عمرا ن خان نے کہا کہ پارٹی کو منظم کر کے بلدےاتی انتخابات مےں بھر پورتےاری کے ساتھ مےدان مےں اترےں گے۔ ہم شروع دن سے کہہ رہے ہےں کہ ملک مےں ملٹری آپرےشن سے امن نہےں آئے گا۔ تحرےک انصاف نظرےاتی جماعت ہے جس نے انٹرا پارٹی الےکشن کروا کر اےک نئی مثال قائم کی۔ تحرےک انصاف کی سےاست اور فےملی پارٹی کی سےاست کو عوام نے فےصلہ کرنا ہے کہ وہ کس کو پسند کرتے ہےں۔ اس موقع پر مرکزی سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین اور لاہور کے صدر عبدالعلیم خان بھی موجود تھے۔
عمران