کرنل (ر) آصف ڈار
2010ء کی گوانگژو ایشین گیمز میں وومن کرکٹ ہاکی اور سکواش کی ٹیموں نے سونے کے تمغے جیت کر امید کی کرن روشن کی لیکن اس کے بعد پاکستانی کھیلوں میں سیاست کے گھنائونے بادل ایسے چھائے جو ابھی تک چھٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ یوں تو ہماری کھلیں ہمیشہ سیاست کا شکار رہی ہیں جس کی وجہ سے انتہائی قیمتی ٹیلنٹ ضائع ہوتا رہا ہے لیکن 2012ء میں ہونے والے پاکستانی اولمپک ایسوسی کے انتخابات کے بعد کرسی کی جنگ نے پاکستان کی کھیلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ گذشتہ ایک ہفتہ سے ہمارے کھلاڑی انچیون میں 17ویںایشین گیمز میں خطہ کے 45ملکوں کے مرد و خواتین سے 25کھیلوں میں تمغوں کے حصول کیلئے مقابلہ کررہے ہیں ان کی ابھی تک کی کارکردگی اور دوسرے ہفتہ کی متوقع کارکردگی پہ نظر دوڑائی جائے تو صورت حال اتنی حوصلہ افزا نظر نہیں آئی تقریباً300کے قریب کھلاڑیوں ، آفیشلز۔ٹیکنکل آفیشلز اور دیگر کئی اقسام کے آفیشلز پر مشتمل قومی دستہ میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن کو صرف سیروسیاحت کیلئے بھیجا گیا ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں ان کی متعلقہ فیڈریشنوں سے ووٹ لئے جاسکیں۔ہمارے زیادہ تر کھلاڑیوں خصوصاً سوئمنگ کے مردو خواتین ٹینس کی مردو خواتین ، شوٹنگ مردو خواتین اور کئی دہائیوں تک دنیا میں حکومت کرنے والے سکواش کے کے مردو خواتین نے پاکستانی کھیلوں کے ناظرین اور انچیون میں موجود پاکستانی حاضرین کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں۔ سوئمنگ میں گلاسکو کی آخری پوزیشنز اور چوری میں پکڑے جانے والے واقعہ کے بعد کیا یہ ضروری تھا کہ سوئمرز کو ایک بار پھر آخری پوزیشن لینے کیلئے بھیج دیا جائے کئی سوئمرز نے سٹارٹ ہی نہیں لیا۔ وہ کہاں غائب ہیں ٹینس میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے دعوے کئے تھے۔ لیکن دونوں میدانوں میں تقریباً ہر میچ میں شکست کھانے کے بعدہم مقابلوں سے باہر ہوچکے ہیں۔ فٹ بال میں ایشین گیمز کی تاریخ میں پاکستان نے صرف دو میچ جیتے ہیں پہلا ساٹھ سال فیل منیلا میں سنگاپور کو ہرکر اور دوسرا چالیس سال قبل تہران میں بحرین کو ہرا کر اس کے بعد ایشیائی کھیلوں میں ایک میچ بھی جیتنے سے محروم ہیں۔ ہماری کھیلوں کے سربراہوں کو نہ تو زرمبادلہ کی فکر ہے اور نہ عزت کی بیس بال والے بھی دعوئوں پر دعوے کرنے کے بعد ناکام لوٹ گئے۔ یہ غالباً اپنے خرچے پر گئی تھی لیکن خرچہ کس کی جیب سے گیا تھا۔ زہن میں بھی رکھا جائے کہ ہماری بہت سی ٹیمیں اور کھلاڑی باہر جاکر غائب ہوجاتے ہیں انسانی سمگلنگ میں ملوث ہوکر گرفتار ہوتے ہیں۔ منشیات کی سمگلنگ میں غیر ممالک میں سزائیںکاٹ چکے ہیںووشو میں مراتب علی نے کانسی کا تمغہ جیت کر ہمارے تمغوں کا آغاز کیا ہے۔ جس پر ڈائریکٹر جنرل پاکستان سپورٹس بورڈ اختر گنجیرا نے نعرہ بازی شروع کردی ہے۔ گنجیرا کی ڈیوٹی میں صرف بیان بازی اور نعرہ بازی شامل ہے باقی ان کی کیا ڈیوٹی ہے شائد انہیں بھی پتہ نہ ہوکیا وہ جواب دیں گے کہ بحثیت ڈی۔جی۔پی، ایس ۔جی انہوں نے کیا اہم کام کیاہے؟ آئندہ ہفتہ پاکستانی شائقین کیلئے لازماً پہلے سے بہت بہتر ثابت ہوگا ہاکی میں ہمارا سیمی فائنل میں آسان حریف ملائشیا ہے جسے جیت کر پاکستان فائنل میں جاکر گولڈ یا یقینی سلور کا حقدار ٹھہرے گا کبڈی میں عموماً پاکستان اور بھارت کے درمیان گولڈ میڈل کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ہم نے ایشین گیمز کے نزدیک نیشنل سرکل کبڈی کرواکر خطرہ مول لیاہے۔ پہلی دو پوزیشنوں سے نیچے آنا سراسر ہماری نااہلی ہوگی رگبی اور ٹیکوانڈو گزارہ کریگی باکسنگ کے ایشائی مقابلے آسان نہیں ادھر میڈل کی توقع کی جاسکتی ہے۔ کراٹے میں بھی سعدی کافی تجربہ رکھتے ہیں لہذا میڈل آسکتا ہے۔ ماضی میں بہت بہتر ریکارڈ رکھنے والے پہلوان ریسلنگ منتظمین کی نااہلی کی وجہ سے شائد کہیں نظر بھی نہ آئیں 2010ء کے کامن ویلتھ کے گولڈ میڈلسٹ انعام 2014ء کی کامن ویلتھ کی طرح شائید ایشین گیمز میں بھی میڈل سے محروم رہیں۔ اس کھیل میں بہت سے پہلوان ایسے بھیجے گئے ہیں جن کی قومی سطح پر بھی کوئی شناخت نہیں۔ ویٹ لفٹرز دوسرے ہفتہ میں بھی اپنی تاریخ کی بدترین پرفارمنس دینگے کیوں کہ یہ فیڈریشن بھی ریسلنگ کی طرح اقرباپروری کا شکار ہے یوں واضح نظرآرہا ہے کہ ہمارا بھاری بھر کم دستہ 2010ء کی پرفارمنس دہرانے میں ناکام رہے گا۔