امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون نے بھارت کو 34 قسم کے انتہائی جدید ہتھیاروں کی تیاری میں شراکت کی پیشکش کی ہے۔ بھارت کو پینٹاگون کی طرف سے یہ پیشکش ایسے موقع پر کی گئی ہے جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کیلئے امریکی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔ بھارتی ذرائع کے مطابق پینٹاگون نے بھارت کو جن ہتھیاروں کی مشترکہ تیاری کی پیشکش کی ہے‘ ان میں جیولین اینٹی ٹینک میزائل اور سکارپیئن میوٹیشن بم اور انکی ٹیکنالوجی کی منتقلی شامل ہے۔ جیولین انفراریڈ گائیڈڈ میزائل ہے جس کی رینج پانچ کلو میٹر ہے اور یہ میزائل افغانستان اور عراق میں استعمال ہو چکے ہیں۔ ذرائع کیمطابق بھارت امریکہ سے چار ارب ڈالر کے جیولین میزائل کی خریداری کیلئے غور کررہا ہے۔ دیگر ہتھیاروں میں مائیکرو آبزرور‘ گرائونڈ سینسرز اور کینن گنز شامل ہیں۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کیمطابق پینٹاگون کی جانب سے متذکرہ پیشکش واشنگٹن میں 22 سے 25 ستمبر کے دوران سیکرٹری سطح پر ہونیوالے امریکہ بھارت مذاکرات کے موقع پر کی گئی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے سرکاری دورۂ امریکہ کے دوران چھ سمجھوتوں پر دستخط بھی کر رہے ہیں جس کی منظوری بھارتی کابینہ کی جانب سے دی گئی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں امریکہ نے فرنٹ لائن اتحادی تو پاکستان کو بنا رکھا ہے جس کی پاکستان اپنے سویلینز اور فوجی اہلکاروں کی پچاس ہزار کے قریب جانی قربانیوں اور ملکی معیشت کے 72 ارب ڈالر کے نقصان کی صورت میں بھاری قیمت بھی ادا کی ہے مگر امریکہ کی مہربانیاں صرف بھارت کیلئے ہوتی ہیں جو پاکستان کی سالمیت کے ہی درپے نہیں بلکہ علاقے کی تھانیداری کے جنوں میں علاقائی امن کیلئے بھی سنگین خطرات کا باعث بن رہا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کے ساتھ ہر امریکی دفاعی اور ایٹمی تعاون کا معاہدہ پاکستان کی سلامتی کیلئے نئے خطرے سے ہی تعبیر کیا جائیگا کیونکہ بھارت ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحے کا ڈھیر پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کے اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے ہی لگا رہا ہے۔ اگرچہ اس خطے میں اروناچل پردیش پر بھارت کا چین کے ساتھ بھی تنازعہ ہے تاہم عوامی جمہوریہ چین کے صدر کے حالیہ دورۂ بھارت کے دوران دونوں ممالک کی قیادتوں نے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون سے متعلق متعدد معاہدے کرکے جس خوشگوار ماحول میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی بنیاد رکھی ہے اسکے تناظر میں آئندہ بھارت کی چین کے ساتھ کسی سرحدی کشیدگی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ بھارت نے خود بھی اروناچل پردیش پر کشمیر جیسی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی ترک کرکے اسے متنازعہ علاقہ تسلیم کرلیا ہے جو چین کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اب بھارت اپنے جنگی جنون کو فروغ دے کر جو بھی جدید اور روایتی ہتھیار اور ٹیکنالوجی حاصل کریگا‘ وہ لامحالہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف ہی بروئے کار لائی جائیگی۔ اس تناظر میں دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون کی آخری حد تک جانیوالے ہمارے حکمرانوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم تو امریکہ کی سلامتی کی خاطر دہشت گردی کی جنگ میں اپنا انجرپنجر تک ہلا چکے ہیں جبکہ امریکہ ہماری سلامتی کے درپے بھارت کو دفاعی صلاحیتوں سے مالامال کررہا ہے اور دفاعی طاقت کے اسی زعم میں بھارت مختلف اقدامات و اعلانات کے ذریعے ہماری سلامتی کو چیلنج بھی کرتا رہتاہے‘ سرحدی کشیدگی کو بھی فروغ دے رہا ہے اور تنازعہ کشمیر کے باوقار اور مستقل حل کیلئے کسی بھی سطح پر ہمارے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا۔
یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر دیگر ممالک کے سربراہان حکومت و مملکت کی طرح پاکستان اور بھارت کے سربراہان حکومت کی ملاقات بھی ہونی چاہیے جس سے دوطرفہ تعاون کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں اور دیرینہ تنازعات کے حوالے سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے مگر بھارت کی جانب سے اس موقع پر ہمیشہ دودھ میں مینگنیں ڈالنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے اور عالمی برادری کے سامنے یہ تاثر اجاگر کیا جاتا ہے کہ دوطرفہ دیرینہ تنازعات میں سارا پاکستان ہی کا قصور ہے۔ اسی تاثر کے تحت گزشتہ سال بھی یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سرحدی کشیدگی کو انتہا تک پہنچا کر بھارت کی جانب سے پاکستان پر بے سروپا الزام تراشی کا سلسلہ شروع کیا گیا اور بھارتی وزیراعظم کی اپنے ہم منصب وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ملاقات کے امکانات کو معدوم قرار دیا جانے لگا اور پھر الزامات کے اعادہ کیلئے ملاقات کربھی لی گئی جس سے بھارت کا یہی باور کرانا مقصود تھا کہ ہم تو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کیلئے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔ بھارت نے یو این جنرل اسمبلی کے موجودہ اجلاس کے موقع پر بھی پاکستان کو زیربار رکھنے کی اپنی اسی پالیسی کا تسلسل برقرار رکھا ہے اور نریندر مودی کا دورۂ امریکہ شیڈول ہوتے ہی مختلف ذرائع سے پاکستان کو یہ باور کرانا شروع کر دیا گیا کہ نیویارک میں پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مابین گزشتہ ماہ 26 اگست کو طے شدہ مذاکرات بھی بھارت کی جانب سے سبوتاژ کئے گئے اور کشمیری رہنمائوں کی پاکستان کے ہائی کمشنر سے ملاقات کو جواز بنا کر پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ کشمیری طلبہ کے ساتھ ناانصافیوں کی بھی بدترین مثالیں قائم کی گئیں اور پاکستان سے ہر سطح کے مذاکرات بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا جس کا اعادہ گزشتہ روز بھارتی ہائی کمشنر ڈاکٹر ٹی سی اے راگھوان نے اپنے اس رعونت بھرے بیان کے ذریعے کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی نیویارک میں ملاقات نہ ہونا کوئی اچنبھے یا پریشانی کی بات نہیں۔ انکے بقول پاکستان بھارت وزراء اعظم اور خارجہ سیکرٹریوں میں ملاقات نہ ہونے سے قیامت نہیں آجائیگی۔ اگر اس بھارتی رویے کی موجودگی میں امریکی پینٹاگون کی جانب سے عین اس وقت بھارت کو انتہائی جدید ہتھیاروں کی تیاری میں شراکت کی پیشکش کی گئی ہے جبکہ وہ پہلے بھی دفاعی اور ایٹمی تعاون کے معاہدوں کی شکل میں بھارت کو نواز چکا ہے تو اس کا مقصد نیویارک کے دورے پر گئے وزیراعظم پاکستان کو پریشان کرنے اور دفاعی پوزیشن میں لانے کا ہی ہو سکتا ہے۔ اسکے برعکس ہماری جانب سے امریکہ کو داعش کیخلاف اقدامات کیلئے عالمی اتحاد کا ساتھ دینے کا بھی فدویانہ یقین دلایا گیا ہے حالانکہ داعش کے معاملات سے ہمارا کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے اور ہم اپنی سرزمین پر اپریشن ضرب عضب میں مصروف ہیں۔ اس تناظر میں تو وزیراعظم نوازشریف کو بھی سوچنا چاہیے کہ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کی جنگ میں ہماری بیش بہا قربانیوں کا صلہ ہمیں بھارتی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھا کر دیا جا رہا ہے تو ہمیں اسکی جی حضوری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمیں بھی اپنے ملک کی خودمختاری و سلامتی اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اگر ڈرون حملوں سمیت امریکہ کی کسی پالیسی سے ہماری جغرافیائی سلامتی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو ہمیں بھی امریکی سلامتی اور مفادات کا ازخود رکھوالا بننے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اسی طرح اگر بھارت کے خیال میں پاکستان بھارت وزراء اعظم اور خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات نہ ہونے سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑیگی تو ہمیں بھی ایسی ملاقاتوں کیلئے کوئی تردد نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سطور شائع ہونے تک وزیراعظم نوازشریف کا یو این جنرل اسمبلی سے خطاب ہو چکا ہو گا جس کے بعد ان کا بھاری اخراجات کے ساتھ امریکہ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں اس لئے وہ بھارتی وزیراعظم سے انکی مہربانی کے ساتھ ملاقات کا انتظار کرنے کے بجائے فوری طور پر ملک واپس آجائیں جہاں انکی اپنی حکومت بھی سنگین بحرانوں کی زد میں ہے اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی ملک اور عوام کیلئے حل طلب کی سنگین مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں امریکہ کو یقین دلا چکے ہیں کہ پاکستان داعش کیخلاف امریکہ اور بین الاقوامی اتحاد کی کارروائیوں کا حامی ہے اس لئے اب مزید عاجزانہ طرز عمل اختیار کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اگر بھارت بھی ہماری شہ رگ کشمیر کو دبا کر ہماری جان نکالنے کے درپے ہے اور دہشت گردوں نے بھی ملک کی سلامتی سے کھیلنے کا مذموم کاروبار جاری رکھا ہوا ہے تو داعش کیخلاف امریکی عالمی اتحاد میں شامل ہو کر ہم پاکستان میں بھی اسکے دہشت گردانہ غیظ و غضب کو دعوت دینے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں۔ یہ مرحلہ یقیناً فہم و بصیرت کا متقاضی ہے جبکہ ایسے مراحل ہی قومی قیادتوں کا امتحان ہوتے ہیں۔ اپنی حکمرانی کے حوالے سے بحرانوں میں گھرے وزیراعظم نوازشریف کو بہرصورت اس کا ادراک کرنا چاہیے۔