پاکستان کی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کمیٹی کے دو درجن سے زیادہ علمائے کرام کے متفقہ فیصلے کے مطابق اعلان کر دیا ہے کہ ”پاکستان میں عیدالاضحی 6اکتوبر کو ہوگی۔“ مفتی صاحب جب بھی اس طرح کا اعلان کرتے ہیں، رویت ہلال کمیٹی سے باہر علماءیہ اعلان تسلیم نہیں کرتے۔ ہر سال ہمارے یہاں عید الفطر اور عیدالاضحی دو دو منائی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ہر عید کو ”عیدین“ کہا جا سکتا ہے۔”لندن میں بھی دو عیدیں“!فی الحال لندن کے علما نے اعلان نہیں کیا کہ عیدالاضحی کب ہوگی؟ جب بھی ہو گا‘ دوسرے مسلک کے علماءدوسرے دن عید منانے کا اعلان کر دیں گے۔ میں گزشتہ سال اکتوبر میں لندن میں تھا۔ تو دو عیدیں منائی گئی تھیں۔ میں نے اپنے بیٹوں سالیسٹر انتصار علی چوہان اور انتظار علی چوہان اور پوتوں حیدر علی چوہان اور ذاکر علی چوہان کے ساتھ اس لئے پہلے ہی دن 24 اکتوبر کو لندن کے علاقہ ”Collirers wood“ میں بنگلہ دیشی بھائیوں کی مسجد ”دارالامان“ میں پڑھ لی تھی کہ نیک کام میں دیر کیوں کی جائے؟ البتہ عید میں نے دو دن ہی منائی تھی۔دوسرے دن میں نے عید فاتح سلہٹ، تحریک پاکستان کے نامور کارکن اور تحریک تکمیل پاکستان کے بانی صدر جناب محمود علی کے بھائی مشرف مشتاق علی اور ان کی اہلیہ محترمہ سلینہ علی کے ساتھ منائی تھی۔ ان کا گھر انتظار علی چوہان کے گھر سے 19 میل دور تھا لیکن میں نے سعادت مند بیٹے کے تعاون سے تکمیل پاکستان کی طرف یہ سفر آسانی سے طے کر لیا تھا۔ لندن میں کوئی بھی سیاسی جماعت قربانی کی کھالیں اکٹھی نہیں کرتی۔ پاکستان میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے 17 فروری 1970ءکی عیدالاضحی کی قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی اپیل کی اور کامیاب رہی۔ ایک صحافی نے جناب بھٹو صاحب سے پوچھا کہ آپ تو سوشلسٹ ہیں پھر قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا مطلب؟ بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ ”پیپلز پارٹی کا ایک رہنما اصول یہ ہے کہ ”اسلام ہمارا دین ہے“۔ پھر قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا میدان جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کے لئے کھلا کیوں چھوڑ دیا جائے“؟اس کے بعد بھٹو صاحب اور ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی کو قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اس لئے کہ”ان کے گلشن میں علاج تنگئی داماں بھی تھا“!کراچی میں رینجرز نے ایم کیو ایم کے ایک ایم پی اے کے دفتر پر چھاپا مارا تو ایم کیو ایم کے ایک لیڈر جناب وسیم احمد نے گلہ کیا کہ ”ایم کیو ایم کے گرفتار ہونے والے کارکن قربانی کی کھالیں جمع کرنا چاہتے تھے“۔ اگر یہ بات ہے تو بہت زیادتی ہے قربانی کی کھالیں جمع کرنا تو کوئی جرم نہیں ہے۔ علامہ طاہر القادری کا ادارہ منہاج القرآن نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے 90 ملکوں میں قربانی کی کھالیں جمع کر رہا ہے۔ یہ ادارہ تو مختلف حکومتوں سے عطیات بھی وصول کرتا ہے۔ فروری 2013ءسے برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد وکلاءکی تنظیم ”Association of Pakistan Lawyers“ (A.P.) کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک نے برطانیہ میں رفاہی اداروں کی نگرانی کے بورڈ ”Charit Commission“ منہاج القرآن کے خلاف درخواست دے رکھی ہے کہ اس نے خیانت کر کے طاہر القادری کو بلٹ پروف گاڑی خرید کر دی۔”شیخ رشید احمد کا اعزاز یا اعجاز“؟پاکستان تحریک انصاف کے (معطل صدر) جناب جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ”پاکستان عوامی مسلم لےگ کے صدر شیخ رشید احمد، پاکستان تحریک انصاف کے بھی اعزازی چیئرمین ہیں۔ ہاشمی صاحب نے جوش خطابت یا بھولپن میں شیخ صاحب کی ”قائدانہ صلاحیت“ کی تعریف کر دی ہے۔ حالانکہ موصوف کہنا یہ چاہتے ہوں گے کہ ”جناب شیخ کا نقش قدم، یوں بھی ہے اور یوں بھی“شیخ رشید احمد کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ ”میں شیخ ہوں، خسارے کا کام کبھی نہیں کرتا“۔ علامہ القادری ”شیخ الاسلام“ ہیں وہ شیخ رشید احمد کی نسبت، مذہب اور سیاست میں خسارے اور فائدے کا زیادہ خیال رکھتے ہوں گے۔ شیخ صاحب نے کمال یہ کیا کہ بلٹ پروف کنٹینر خریدنے پر اپنی جمع پونجی خرچ نہیں کی۔ جب چاہتے ہیں عمران خان کے کنٹینر پر پھلانگ کر چڑھ جاتے ہیں اور جب چاہا طاہر القادری کے کنٹینر پر اور بڑی فراست سے پاکستان کے تیسرے بڑے دھرنا باز لیڈر بن گئے۔ اس طرح کا ”کم خرچ اور بالانشین“ (کنٹینر نیشن) لیڈر اور کون ہو گا۔ شیخ صاحب کا یہ اعزاز نہیں بلکہ اعجاز ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف اور پھر صدر جنرل پرویز مشرف کے ”گھاٹ گھاٹ کا منرل واٹر پیا“۔ یعنی”جہاں بھی گئے‘ داستاں چھوڑ آئے“قومی حکومت بن گئی تو مجھے اور جناب جاوید ہاشمی کو یقین ہے کہ شیخ صاحب کم از کم ڈپٹی پرائم منسٹر ضرور ہوں گے قومی حکومت کے حامی کسی لیڈر نے بھی شیخ صاحب کی عوامی مسلم لےگ کو ”قاتل لیگ“ کا خطاب نہیں دیا۔مسئلہ کشمیر اٹھانا ....اور بٹھانا؟25 ستمبر کو نیو یارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ”میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو بھی اٹھاﺅں گا“ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے کہا کہ ”پاکستان تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ اور تجارتی تعلقات کا خواہشمند ہے“۔ پڑوسی ملکوں میں سب سے بڑا پڑوسی بھارت ہے جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتا اور قرار دیتا ہے وزیر اعظم ہاﺅس کے ملازم بڑی تنخواہیں لینے والے خوشامدی شیروں اور بیوروکریٹس نے قائد اعظم کی کرسی (پاکستان مسلم لےگ کی صدارت) پر رونق افروز، وزیر اعظم کو ”امن کی آشا“ کے عشق میں مبتلا کر رکھا ہے۔ تجارت اور تحائف کے تبادلے میں جوش و خروش کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو اٹھانا اور پھر بٹھانا‘ مشکل تو ہو گا؟”علامہ القادری کی ناک پر مکھی“؟عمران خان کے مشورے پر علامہ طاہر القادری اپنے پنجرے (بلٹ پروف کنٹینر) سے باہر نکلے تو فوراً ہی انہوں نے اپنی ناک پر رومال رکھ لیا۔ مختلف نیوز کاسٹروں نے بتایا کہ ”قائد انقلاب“ کو اپنے انقلابیوں سے بو بلکہ ”بدبو“ بہت آئی۔ انقلابیوں میں سے کوئی بھی باذوق نہیں تھا۔ ورنہ ناک پر رومال رکھنے والے اپنے قائد سے ضرور عرض کرتا کہ”جب مجھے دیکھا‘ چڑھائی ناک بھوں“”کیا گل الفت کی بو اچھی نہیں“؟علامہ القادری کے کارکنوں کی ”گل الفت“ (محبت کی مٹی) کی بو کی بات نہیںبلکہ اصل بات یہ تھی کہ علامہ القادری کی ناک سے اتنی بدبو آ رہی تھی کہ سینکڑوں نسل کی مکھیاں اس کے گرد منڈلانے لگی تھیں۔ علامہ القادری چونکہ اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے اس لئے موصوف کو اپنی ناک پر رومال رکھنا پڑا۔”محب وطن ڈینگی مچھر“!ایک نیوز چینل کی خبر کے مطابق ”برازیل کی حکومت نے ‘ موذی پرندے (مچھر) ڈینگی کے خاتمے کے لئے‘ ”Good Dengue“ (اچھا ڈینگی) دریافت یا ایجاد کیا ہے“۔ مجھے فوراً یہ ”IDEA“ سوجھا کہ میں‘ ڈاکٹر مجید نظامی (مرحوم) کے ”شہباز پاکستان“۔ میاں شہباز شریف سے میں عرض کروں کہ وہ جلد از جلد برازیل کا دورہ کریں اور وہاں سے اچھے ڈینگی خرید کر یا کرائے پر لائیں۔ وہ خود برے ڈینگیوں سے نمٹ لیں گے۔ یوں بھی ”شہباز پاکستان“ کا ایک حقیر ترین مچھر کے مقابلے میں اترنا اچھا نہیں لگتا۔ انہیں بڑے بڑے منصوبے مکمل کرنا چاہئیں مثلاً”پل بنا‘ چاہ بنا‘ مسجد و تالاب بنا“!میں نے فروری 2011ءمیں ایک کالم لکھا تھا کہ ”شہباز پاکستان“ اس بات کی تحقیق کے لئے ایک کمیٹی مقرر کریں اور اس کی رپورٹ صدر آصف زرداری کی خدمت میں پیش کریں کہ ”حضرت ابراہیمؑ“ کے دور میں خدائی کا دعوی کرنے والے بادشاہ نمرود کی ناک میں گھس کر اس کی موت کا باعث بننے والا موذی مچھر ”ڈینگی“ تھا یا کسی اور نسل کا“؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ”شہباز پاکستان“ میرا مفت مشورہ مان لیتے؟ لیکن اب کیا فائدہ؟ اب تو جناب زرداری ”جمہوریت کے تسلسل“ کے لئے شریفوں کی حکومت کے حمایتی ہیں بہر حال! اگر ”شہباز پاکستان“ برازیل سے ”اچھے ڈینگی“ لے آئیں اور ان سے برے ڈینگیوں کا خاتمہ کروا دیں تو ان کی نیک نامی ہوگی اور ہاں! اس کے بعد‘ اچھے ڈینگیوں کو ”محب وطن ڈینگی“۔ قرار دیا جائے لیکن اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے ایوان میں دہشت گردوں کے جس گروہ کو ”محب وطن طالبان“ کہا تھا ان کے خلاف پاک فوج کو آپریشن ”ضرب العضب“ کرنا پڑا۔
”محب وطن ڈینگی!“
Sep 27, 2014