پاکستان کا سیاسی ماحول‘ علاقائی سکیورٹی میں میڈیاکا کردار

گزشتہ تین چار دہائیوں سے غربت افلاس اور دیگر ہر نوعیت کی محرومیوں میں پسے ہوئے بے زبان عوام نے اب اپنے حقوق کے حصول کیلئے حلقہ زبان بندی سے نکل کر کروٹ لیتے ہوئے علامہ اقبال کے کلام کو گنگنانا شروع کر دیا ہے ” اًٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو“ یہ ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ ہے جب ہر کوئی 1940ءکی دہائی میں اس قومی جوش و جذبہ کو یاد کر رہا ےہ جس نے تحریک پاکستان کے دوران پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو اتحاد ایمان اور تنظیم کے جذبات سے مسحور کرتے ہوئے 7برس کی قلیل جدوجہد کے نتیجے میں قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی تاریخ ساز کرشماتی قیادت نے دنیا کے جغرافیہ پر ایک آزاد مسلمان ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان ک معجزہ برپا کر دیا تھا۔ اس وقت ہندوستان کے تمام ذرائع و ابلاغ اور مغرب کا پورا میڈیا پاکستان اور قائداعظم کے خلاف متحد تھا۔ لاہور میں 23مارچ 1940کے تاریخ ساز اجلاس کے آغاز میں حمید نظامی نے پہلے نظریاتی اخبار ”نوائے وقت“ کا پندرہ روزہ پرچہ جاری کر کے ایک نڈر بے باک اور آزادانہ صحافت کی ابتدا کی۔ 1940 ءسے لیکر آج تک حمید نظامی مرحوم و مغفور کے بعد انکے چھوٹے بھائی آبروئے صحافت نظریہ پاکستان کے محافظ اور پاکستان کے واح بطلِ جلیل مرحوم و مغفور مجید نظامی نے جابر سلطان کے سامنے ہمیشہ کلمہ ءحق کو نہایت جرات سے سر بلند رکھا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومی سطح پر قائد اعظم اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد یہ جذبہ اچانک کیوں زوال پذیر ہو گیا۔ جمہوریت اور عدلیہ کی سر بلندی کیوں زوال پذیر ہو گئی۔ پاکستان کی صحافت اور میڈیا نے تحریک پاکستان کی تابندہ اور رخشندہ حب الوطنی اور جانثاری کی روایات کیوں برقار نہ رکھی پائے۔ 1965ءکی جنگ کے دوران پاکستان کے ذرائع اور ابلاغ نے قومی یک جہتی اور وطن کی سر بلندی کیلئے پوری قوم کیساتھ ملکر وہ بے مثال اور تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ جو اسلامی روایات کا ایک زریں باب ہے لیکن پھر اچانک یہ عظیم قوم اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہو کر 1971ءمیں کیسے اور کیونکر دو لخت ہو گئی اور اسکے بعد گزشتہ 5دہائیوں سے قوم کے اندر انتشار اس حد تک فروغ پاتا گیا کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان نا ہی حقیقی معنوں میں اپنے اسلامی ورثہ اور قدروں کا پاسدار ہے میثاق ِ مدینہ پر عملدرآمد تو کجا ہماری 1965ءسالہ تاریخ کے تمام حکمران میثاق ِ مدینہ کے نام سے بھی نابلد اور ناواقف ہیں اور جہاں تک جمہوریت کی اصل روح کا تعلق ہے وہ قائداعظم کی رحلت کیساتھ ہی پاکستان کی سر زمین سے پرواز کر چکی ہے۔ کیا ہمارے دانشوروں سیاسی قیادت اور جدید ذرائع و ابلاغ کی کرشماتی طاقت نے کہیں نہ کہیں سے کسی ایشائی یورپین یا امریکن ریاست سے جمہوری نظام کی اس روح کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جسے علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان اپنی تاریخ کا ذرا سا بھی مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائے تو یہ حقیقت قابل تردید ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا تحریر میں لایا گیا آئین ریاست مدینہ کی مثالی گڈ گورننس کی حامل جمہوری حکومت کا اعلی ترین نمونہ ہمارے آقا اور مولا سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میثاق ِ مدینہ کی صورت میں پیش کیا تھا۔ پاکستان آج جن سنگین طوفانوں کی زد میں گھیرا ہوا ہے اسکے تصور سے ہی اہل بینہ جن کو قطرہ میں دجلہ کا طوفان نظر آنا چاہئیے کانپ ااُٹھنے کا مقام ہے پاکستان کی شہہ رگ کشمیر دشمنوں کے قابو اور کنٹرول میں ہے کشمیر سے آنیوالے دریاﺅں سے بھارت کی کینہ پروری بلکہ کمینگی سے جو ہولناک سیلاب اور تباہی اہل ِ پاکستان پر برپا ہوئی بلکہ ٹھونسی گئی اس پر ناہی ہماری پارلیمنٹ نا ہی ہمارے میڈیا اور نا ہی ہمارے دفتر ِ خارجہ نے اسلام آباد میں مقیم بھارتی ہائی کمیشنز کو طلب کر کے اپنے کسی احتجاج کا عندیہ تک نہیں دیا نا صرف بھارتی میڈیا بلکہ عالمی ذرائع و ابلاغ بھی طنزیہ طور پر بلکہ مذاقاً جب موقعہ ملے سوال اُٹھاتے ہیں کہ پاکستان کا وزیر خارجہ کون ہے؟بھارت تو اسی وجہ سے اب تک نریندری مودی کو ہمارے وزیر اعظم کی لاکھ کوشش کے باوجود اسلام آباد یاترا کی اجازت نہیں دے رہا ۔ایسے پس منظر میں کشمیر سمیت کسی ٹھوس اور مثبت ایشوز پر پاکستان جیسے عظیم نیو کلیئر ملک کا سربراہ بھارتی وزیر اعظم یا دیگر عالمی لیڈروں سے بھلا کیسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے جبکہ کئی ممالک کے سربراہ بشمول چین اسلام آباد آنے سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ روس کے صدر پیوٹن نے بھی نیویارک میں ہمارے وزیراعظم کو شرف ِ ملاقات بخشنے سے معذرت کر لی ہے ایسے حالات میں پاکستان کے مضبوط خود مختار اور آزاد میڈیا کو اپنے ملک کے شایان ِ شان کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کے سامنے ایسا امیج پیش کرنے کی جرا¿ت مندانہ کاوش کرنی چاہئے۔ روزمرہ کے حالیہ جلسوں ریلیوں اور دھرنوں کے علاوہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب ِ عضب کی کامیابی کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بے چینی کی فضا کو منصفانہ اور حقیقت پسندانہ انداز میں عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے تمام معاملات خصوصاً اخبارات کی ترجیحات اور ٹی وی چینلنز کی متوازن PRESENTATION میں ذاتیات اور انتقامی جذبات کا مظاہرہ طرح طرح کی افواہوں کو جنم دیتا ہے جو ملکی مفاد اور پاکستان کی قومی سلامتی کے سراسر منافی ہے۔

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

ای پیپر دی نیشن