”پاکستانی فنکار“ پھر آئے نشانے پر

Sep 27, 2016

پاکستان نے جب سے چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کا معاہدہ کیا ہے تب سے بھارت سرکار تو پاگل ہی ہوگئی ہے کبھی وہ بحر ہند میں امریکہ کے ساتھ جنگی مشقوں کی باتیں کرتی ہے، کبھی گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں ایران میں چاہ بہار بندرگاہ بنانے کی باتیں کرتی ہے، کبھی پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی باتیں کرتی ہے اور کبھی پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کرنے کی باتیں کرتی ہے۔ اس پر اس قدر جنگی جنون سوار ہو گیا ہے کہ اگلے مورچوں پر توپیں اسلحہ اور گولہ بارود پہنچانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں صرف بھارت سرکار ہی نہیں بھارتی میڈیا، وہاں کی انتہا پسند ہندو تنظمیں جنگی جنون پیدا کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں بھارت میں کام کرنے والے پاکستانی فن کاروں کے پیچھے پڑ جاتی ہیں۔ دونوں ملکوں میں کشیدگی نہ بھی ہو تب بھی آئے روز وہاں پر انتہا پسند تنظیمیں پاکستان فن کاروں کو وہاں پر کام سے روکنے اور بھارت سے نکالنے کی باتیں کرتی رہتیں ہیں۔ اب چونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی عروج پر ہے، بھارتی انتہا پسند تنظیمیں بھی بھارت میں کام کرنے والے پاکستان فن کاروں کے خلاف سرگرم ہوگئی ہیں ایک اخباری اطلاع کے مطابق مہاراشٹر کی انتہا پرست جماعت مہاراشٹرا نونرمن سنہا (ایم این ایس) نے پاکستان کے نامور فنکاروں کو 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑنے کی دھمکی کے بعد بالی وڈ اداکار شاہ رخ خان اور کرن جوہر کو بھی پاکستانی اداکاروں کو کاسٹ کرنے پر دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق جماعت ایم این ایس چترا پٹ سنہالی جنرل سیکرٹری شالینی ٹھاکرے کا کہنا تھا کہ یہ کوئی پوشیدہ دھمکی نہیں بلکہ شارہ خان اور کرن جوہر جیسے پروڈیوسر کو سیدھی دھمکی ہے جو اپنی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو کاسٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ کو 125 کروڑ کی آبادی میں سے اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے کیلئے کوئی بھارتی اداکار نہیں مل رہا جس کی وجہ سے آپ کو پاکستان جیسے ملک سے اداکاروں کو یہاں لانا پڑے۔ ان کا شاہ رخ خان کی ماہرہ خان کے ساتھ فلم ”رئیس“ اور کرن جوہر کی فواد خان اور عمران عباس کے کرداروں کے ساتھ فلم ”اے دل ہے مشکل“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ فلمیں بھارت میں ریلیز نہیں ہونے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان فلموں کے تمام پرڈوسرز سے گزارش کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ تعاون کریں ورنہ وہ ہر اس جگہ کی شوٹنگ روک دیں گے جہاں پاکستانی اداکار موجود ہوں گے۔
بھارتی انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے بھارت میں کام کرنے والے فن کاروں کو دی جانے والی دھمکیوں پر ہم نے ان فن کاروں سے گفتگو کی ہے جو کام کے سلسلے میں بھارت آتے جاتے رہتے ہیں ان فنکاروں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے منتخب حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کئے جارہے ہیں:
معروف ادکار جاوید شیخ نے کہا ہے کہ دھمکیاں ایک تنظیم کی طرف پاکستانی فنکاروں کو دی جارہی ہیں اور وہ بھی صرف مہاراشٹر کے شہر ممبئی میں دی جارہی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہاں کی سول سوسائٹی یا فلم انڈسٹری خلاف نہیں سوائے ایک فنکار ابھیجیت سنگ کے، اس کے ساتھ ساتھ بھارتی فنکاروں کی اکثریت پاکستانی فن کاروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہے۔ لہٰذا یہ دھمکیاں پہلے بھی ملتی رہتی ہیں اور اسی ایک تنظیم کی طرف سے آتی ہیں اور کچھ دیر بعد حالات نارمل ہو جاتے ہیں خود آپ کو یاد ہوگا کہ خورشید قصوری جب بھارت میں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے لئے گئے تھے اس تنظیم نے ان کے میزبان کے منہ پر سیاہی پھینک دی تھی اس کے باوجود ان کی کتاب کی تقریب ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ چھوٹی موٹی دھمکیاں ہیں ان سے سارا سسٹم نہیں رکتا۔ میں نے آج ہی ایک ٹی وی چینل پر مہاراشٹر کے پولیس چیف کا بیان پڑھا کہ جس میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی انتہا پسند احتجاج کے لئے باہر نکلیں گے تو ہم پاکستان سمیت تمام فن کاروں کا تحفظ کریں گے۔ معروف گلوکار عدیل برکی نے کہا کہ ہمارے جو بھی فن کار اور پاکستانی بھائی بھارت میں موجود ہیں ان کے جان و مال کی حفاظت انڈین گورنمنٹ پر لازم ہے اور یہ تکلیف دہ بات ہے کہ ہم فن کار محبتوں کے چھوٹے چھوٹے ذرے اکھٹے کر کے دوستی کا جو پل بناتے ہیں، سیاستدان اسے ایک لمحے میں ہی اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی بہت ضروری ہے لیکن اس کے لئے معصوم لوگوں کی مزید جانیں ضائع نہیں ہونی چاہئیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہم مسلمان غیرت اور عزت کے نام پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ بھلے ہماری تعداد دیکھنے میں بڑے ملکوں سے کم ہے مگر ہمارے حوصلے اور ہمارا عزم بہت بلند ہے ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتے ہیں۔
معروف گلوکار جواد احمد نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کا حکمران طبقہ جنگی جنون پیدا کر رہا ہے کہ اپنے اپنے ملک کے لوگوں کے مسائل پر کسی کا دھیان ہی نہ پڑے۔ دونوں ملکوں کا حکمران طبقہ غریب آدمی، کے مسائل تعلیم صحت روٹی کپڑا مکان کے مسائل حل نہیں کرنا چاہئے اور نہ وہ کر رہا ہے اور اسی لئے وہ جنگ کا ہیجان برپا کر کے قوم کو اصل مسائل سے گمراہ کر کے رکھتا ہے۔ خصوصاً مودی کا جو سابق ریکارڈ ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ امن نہیں چاہتا جب تک یہ رہے گا اس وقت تک پاکستان انڈیا کے مسائل آپس میں بڑھیں گے اور دونوں اطراف کی لائن آف کنٹرول پر حالات کشیدہ رہیں گے۔
معروف گلوکار شوکت علی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایک دوسرے کی سوتنیں ہیں اور ان کا مجازی خدا امریکہ ہے جو دونوں کو لڑاتا رہتا ہے باقی جہاں تک بھارت میں کام کرنے والے فن کاروں کو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے دھمکیوں کا تعلق ہے تو یہ ایک انتہائی کم ظرفی کی بات ہے اور چھوٹا پن ہے۔ جو بھارت والوں کو ورثے میں ملا ہے اللہ تعالیٰ پاکستان کو قائم رکھے بھارت نے تو اسے پیدا ہوتے ہی روگی بنادیا تھا پہلے دن سے ہی وہ پاکستان کے خلاف ہے ” اوہنیں پاکستان نوں 47 توں لے کے ہن تک سکھ دا سا نئیں لین دتا“ے باقی اللہ کے نام پر ملک قائم ہوا اور ہمیشہ قائم رہے گا انشاءاللہ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے پاکستان کے فن کار بھارت میں اور بھارت کے فن کار پاکستان میں کام کرتے رہے ہیں۔ پاکستان سے اداکار محمد علی مرحوم، ندیم، زیبا، سلمیٰ آغا، راحت فتح علی خاں، گلوکار غلام علی، شفقت امانت علی، شفقت سلامت علی خاں رفاقت علی خان، ادداکارہ ماہر خاں، فواد خان عمران عباس سمیت متعدد فن کار بھارت میں کام کی غرض سے گئے جن میں اکثریت کے ساتھ بھارت میں اچھا سلوک نہیں کیا گیا اس کے مقابلے میں بھارت سے متعدد فن کار جن میں اداکار نصیر الدین شاہ، اوم پوری، شیلپاشیٹی، کشے کمار، ہنس راج ہنس، ارمیلا، شرمیلا ٹیکور، مہیش بھٹ شامل ہیں، کئی بار آئے اور یہاں پر قیام کیا یہاں کی عوام نے بھارتی فن کاروں کو بے پناہ عزت دی اس کے مقابلے میں بھارت میں پاکستان فن کاروں کو عزت نہیں دی جاتی جس کی ایک بڑی مثال گلوکار غلام علی ہیں، آئے روز بھارت میں ان کے شوز منسوخ ہوئے ہیں اور انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے دھمکیاں ملتی ہیں۔ وہاں کے گلوکار ابھیجت سنگھ نے تو انہیں ڈینگی مچھر تک کہہ دیا تھا۔ بھارتی حکومت اور عوام کو چاہئے کہ جس طرح پاکستان میں بھارتی فن کاروں کو عزت ملتی ہے۔ اسی طرح بھارت میں بھی پاکستان کے فن کاروں کو عزت دی جائے۔

مزیدخبریں