کیا پاک بھارت جنگ کے امکانات ہیں؟ اس کا جواب بھارتی وزیراعظم مودی، بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر ہند توا تنظیموں کی طرف بار بار دیا جاتا رہا ہے۔ ’’ہند توا‘‘ ایجنڈا جس پر بھارت مودی کی زیر قیادت تیزی سے عمل پیرا ہے اس کا ایک پہلو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ یعنی عظیم بھارت کا جغرافیائی، سیاسی، معاشی اسٹریٹجک حصول ہے۔ ’’عظیم بھارت‘‘ نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، پاکستان، افغانستان کے جغرافیوں کو ایک بنا کر ہند توا کا عملی نفاذ ہے۔ یہ بات قابل ذکر رہے کہ بنگلہ دیش کی حکمران حسینہ واجد ’’پراکسی‘‘ ہے اور بنگلہ دیش، میں عملاً بھارتی پالیسیوں کی نمائندہ حکومت ہے۔ حسینہ واجد نے پاکستان دشمن کو بنیاد بنایا ہوا ہے۔ مگر جب عظیم بھارت بنے گا تو اس میں بنگلہ دیش نیپال، سری لنکا، شامل ہوگا۔ افغانستان کے ماضی بعید کے حکمرانوں نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا اور پاکستانی سرحدی و قبائلی علاقوں کو اپنا جزاور جغرافیہ بتایا تھا۔ درمیاں میں جو بھی افغان حکمران پاکستان کی طرف مائل ہو کر افغانستان و پاکستان میں محبت کا نام پیدا ہوا اسے بین الاقوامی سازشوں نے منظر سے ہٹا دیا۔ ’’ہندتوا‘‘ برصغیر کے مسلمانوں، دلتوی، عیسائیوں کو واپس ہندو زبردستی بنوانے کا مذہبی ایجنڈا رکھتا ہے۔ وہ اسلام دشمنی اور مسلمان دشمنی میں عملاً مبتلا ہے۔ مگر ہمارے اماراتی، سعودی بھائی، قطری بھائی، ایرانی بھائی کس خوش فہمی میں ہیں کہ اس پر دولت و محبت نچھاور کرنے کے لئے مودی کو اپنے ہاں بلاتے رہے ہیں؟ افغانستان کس خوش فہمی میں ہے کہ وہ پاکستان دشمنی میں مبتلا ہو کر بھارت مد مددگار ہے، مگر عملاً تو ہندتوا کا مذہبی، سیاسی، عسکری، اقتصادی ایجنڈا اسلام و مسلمان دشمن ہے خواہ یہ مسلمان افغانستان کا ہو، ایرانی، امارت، کویت و قطر اور سودیہ و مصر ویمن و شام کو ہو۔ اس پہلو کو اگر آپس میں لڑتے مسلمان خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی ہوں پر غور کرسکیں تو ان سب کا وجود شدید ترین ہندتوا فتوحات کا بالآخر لقمہ اجل بنتا ہے کیا افغانستان، بنگلہ دیش، ایران کے مسلمان اور عربوں کو یہ قبول ہے، شائد انہیں تو یہ تلخ حقیقت معلوم ہی نہیں ہے۔ برصغیر اکھنڈ بھارت یا عظیم بھارت صرف سینٹرل ایشیائی نسلوں کے ترک و افغان فاتحین نے بتایا تھا جس کا آغاز امیر تیمور لنگ نے کہا، جسے بابر نے فروغ دیا، جسے شیر شاہ سوری نے مکمل کیا یہ سب تو مسلمان تھے، جسے ہمایوں نے بھی اپنایا۔ مگر کسی بھی ہند و حکمران کی قسمت میں عظیم بھارت کی تخلیق اور اس پر حکمرانی ممکن نہ رہی ہے۔ یہی تاریخ، آجکل بھارت کے اندر دلت اور مسلمان مظلوم بن کر متحدہ قوت بننے پر مجبور ہیں اتر پردیش کی حکمران مایاوتی انہوں کی راہنما اور مسلمان دلت اتحاد کو فروغ دیتی ہے۔ بنگلہ دیش سے مفاہمت بھی مایاوتی کا ہی ایجنڈا ہے۔ سکھوں کو مسلمان محبت کی یادستار ہی ے۔ وہ خالصتان کا مطالبہ شروع کرچکے ہیں۔ جہاں تک پاکستان بھارت کی جنگ کا تعلق عملاً وہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ 2001-2 میں بھارتی جنون پاک سرحدوں پر فوجی اجتماع کیا تھا؟ آج وہ جنگی جنون مزید بڑھ کر ہندو مذہبی ہوچکا ہے۔ کیا پاکستان میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر روکنے میں بھارت نے سرمایہ کاری نہیں کی ہے؟ ہمارے صوبوں میں تنگ نظر و متنصب قوم پرست کیا بھارتی ایجنڈے کے نمائندے نہیں رہے ہیں؟ پانی سے محروم رکھنا کیا بھارت کی مسلط کردہ جنگ نہیں ہے؟
ہمارے وزیراعظم نے لندن میں بے دھیانی سے بلوچستان میں بیرونی مداخلت کو ’’شوشہ‘‘ کہہ کر غیر ذمہ دار چیف ایگزیٹو کا کردار ادا کیا ہے۔ اگر بلوچستان میں بیرونی مداخلت سازش محض ’’شوشہ‘‘ ہے تو 1958ء میں بھارت نے گوادر کو عمان (مسقط) سے خریدنے کی بھرپور کوشش کیوں کی تھی؟ وہ تو اللہ بھلا کرے برطانیہ کا جس نے بھارتی خواہش کو غلط سمجھا اور عمان (مسقط) کے حکمران خاندان کو مجبور کیا کہ وہ گوادر اور پاکستان کو فروخت کرے کیونکہ گوادر بلوچستان اور پاکستان جغرافیہ تھا جس کو تحفہ میں قدیم بلوچی حکمران نے اپنے داماد مسقطی حکمران خاندان کے شہزادے کو تحفہ میں دیا تھا۔ کیا بلوچستان میں بیرونی مداخلت کو ’’شوشہ‘‘ کہنے والے ہمارے بھولے بادشاہ اور صنعت کارو تاجر وزیراعظم کو یہ سب کچھ معلوم ہے؟ شائد بالکل بھی نہیں اور شائد انہیں ایسی معلومات حاصل کرنے کی رغبت بھی نہیں۔ وہ صرف میگا پراجیکٹس اور موٹرویز کے عاشق ہیں۔ جنگ لڑنا شائد انکی افتادہ طبع اور مزاج ہی نہیںہے اگر ایسا ہے تو کتنے صدمے کی بات ہے؟ کیا پاک بھارت جنگ کے امکانات ہیں؟ ہمارا وجدن تو یہی کہتا ہے۔ اسکی تائید تو ماہرین افلاک و علوم باطینہ و عقلیہ نجوم بھی کرتے رہے ہیں پروفیسر غنی جاوید جو ماہر اقبالیات، فلسفہ اور غالب بھی ہیں۔ وہ کھل کر کہتے رہے ہیں ’’پاکستان کے جغرافیہ کو اندرونی اور بیرونی طور پر اسی طرح کا خطرہ ہے جیسا 1970 میں تھا‘‘ مکتی باہنی کے نام پر بھارت نے عسکری جارحیت کر کے پاکستان کو توڑا تھا کیا بھارت بلوچستان، گلگت و چترال اور کراچی کو الگ کرنے اور نئی آزاد ریاستیں بنوانے میں سرمایہ کاری نہیں کرتا رہا؟ صد افسوس اور امریکہ بھی ان معاملات میں اسی طرح سرگرم ہے جیسا بھارت کا ایجنڈا اور خواہش رہے۔ ان ماہرین نجوم افلاک کے مطابق آخر 2017ء تک پاکستان کے جغرافیئے کو شدید ترین خطرہ ہے صرف جنگی دفاع کریں، فی الحال جارحیت کا ارادہ نہ کریں صرف اور صرف دفاعی جنگ کی مکمل تیاری کریں۔ مستقبل میں بھارت کے اندر شدید ترین سیاسی زلزلے اور بغاوتیں متوقع ہے جس سے بھارتی جغرافیئے کو ٹوٹ جانے کے شدید خطرات لاحق ہونگے اس کا عرصہ 1917-20 کے درمیان بیرون امداد اور سرمایہ کاری واپس ہوسکتی ہے اب تک آزادی اور علیحدگی کی جو تاریکیں موجود ہے بھارت کے جنگی جنون کے سبب وہ تو فوراً سے طاقت ور ہوجائینگی ان میں مائو بھارت تحریک، تامل ناڈو تحریک، نچلی ذات کے ہندو کی تحریک، مرہٹہ تحریک، تری پورہ اور آسام کی تحریکیں قابل ذکر ہیں۔ جبکہ خالتصان کے لئے امریکہ اور کینیڈا برطانیہ میں بسنے والے سکھ جدوجہد شروع کرچکے ہیں۔