وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کو امسال بہترین حج انتظامات کا کریڈٹ لیتے ہوئے مجھے اس حوالے سے حیرت ہوئی کہ اس میں وزیر موصوف کا کیا کمال ہے۔ ہمارے دوست جاوید اقبال بٹ نے مدینہ منورہ میں سردار یوسف کے لئے ہم وطنوں کا اکٹھ کیا جس کی سوشل میڈیا پر تصویریں چلیں تو مدینہ منورہ میں جاوید اقبال بٹ کی ہم وطنوں کے لئے آﺅ بھگت کے کئی مناظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔ اڑھائی سال قبل مجھے اہلیہ کے ہمراہ عمرہ پر جانے کی سعادت حاصل ہوئی تو مدینہ منورہ میں بٹ صاحب دیدہ و دل فرشِ راہ کئے نظر آئے۔ ان کا گھر جنگ بدر کے عین مقام پر واقع ہے۔ انہوں نے اپنے گھر تناول ماحضر کی نشست کے دوران اپنے رہائشی علاقے کے تاریخی پس منظر سے بھی آگاہ کیا اور اس بار تو انہوں نے مدینہ منورہ کا ”چپہ چپہ گاہنے“ کی مثال کو عملی قالب میں ڈھال دیا۔ وہ اپنے دوست احمد داﺅد بن لیاقت کے ہمراہ ہوٹل تشریف لائے اور مجھے اور حبیب اللہ سلفی کو لے کر رات بھر مدینہ منورہ کے چپے چپے میں گھماتے پھراتے رہے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کا ایک ایسا مقام بھی دریافت کر رکھا ہے جہاں رات کے وقت پورا مدینہ منورہ ایک محور میں سمٹا جگ مگ جگ مگ کرتا نظر آتا ہے۔ یہ ایک کٹی پھٹی پہاڑی کا بالائی حصہ ہے جس تک گاڑی کے ذریعے سفر بھی انتہائی دشوار گزار ہے مگر احمد داﺅد صاحب نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے یہ راستہ انتہائی مشاقی سے طے کیا اور ہم پہاڑی کے دامن تک پہنچ گئے۔ وہاں جا کر ماحول کا مشاہدہ کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ یہ علاقہ رات کے وقت مقامی نوجوانوں کی ”ڈیٹنگ“ کے لئے محفوظ ترین علاقہ ہے چنانچہ ایسی سرگرمیوں کی جھلک ہمیں بھی دیکھنے کو مل گئی۔ ہماری فرمائش پر جاوید اقبال بٹ صاحب نے ایک پاکستانی ہوٹل پر ہمیں دال روٹی سے لطف اندوز کیا اور رات گئے پہاڑی کے کونے پر موجود کیفے میں گرم گرم کافی کی چسکیاں۔ ذہن کو ایسی تراوت محسوس ہوئی جیسے عمر بھر کی اوڑھی ہوئی تھکن کافور ہو گئی ہو۔
سفر حجاز مقدس کی ان حسین یادوں کا تذکرہ تو میں نے بہت بعد میں کرنا تھا مگر وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کے ساتھ ہمارے دوست جاوید اقبال بٹ کی اٹکھیلیوں نے ایسا ماحول بنا دیا کہ.... لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر، کیا کیجئے“۔ یہ تذکرہ آئندہ بھی ضرور چلتا رہے گا مگر فی الوقت سردار یوسف صاحب پاکستانی حجاج کرام کے لئے قیام و طعام کی اچھی سہولتوں کا جو کریڈٹ لے رہے ہیں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر میں اس کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ بے شک اس بار حجاج کرام فریضہ¿ حج کی ادائیگی کے مراحل میں ہمہ وقت خوش و مطمئن رہے ہیں تاہم اس میں کسی اور کا نہیں، صرف سعودی حکومت کا حسنِ انتظام شامل حال ہے۔ جبکہ مقامی سعودی باشندوں نے بھی اپنے مہمان حجاج کرام کی دیکھ بھال اور آﺅ بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سعودی حکومت نے تو اس بار حج انتظامات بشمول سکیورٹی انتظامات کے ٹھوس پیرامیٹرز متعین کر دئیے تھے جن پر نہ صرف خود سعودی حکومت نے سختی سے عمل کیا بلکہ دوسرے مسلم ممالک سے بھی حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرایا۔ ان پیرامیٹرز کے تحت ایام حج میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو صرف حج ویزہ پر آنے والے حجاج کرام کے لئے کھولا گیا تھا اور مقامی باشندوں تک کا ان دنوں میں ان دونوں مقدس شہروں میں داخلہ بند تھا۔ حجاج کرام کے قیام و طعام کا بندوبست بھی انہی پیرامیٹرز کے مطابق کیا گیا چنانچہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج کی ادائیگی کے دوران قیام کرنے والے بیرون ملک کے حجاج کرام کو صحت و خوراک کے معاملہ میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ پہلے ان مقامات پر لگائے جانے والے خیموں میں اکثر آگ بھڑک اٹھتی تھی جس سے حجاج کرام کا جانی نقصان بھی ہو جاتا تھا۔ اب سعودی حکومت نے خصوصی اہتمام کرکے مستقل بنیادوں پر آگ پروف خیمے تیار کرا کے نصب کر دئیے ہیں جن میں گرمی کی حدت سے بچنے کے لئے ائرکنڈیشنروں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ مختلف یونٹوں اور گروپوں میں تقسیم ان خیموں کے ہر گروپ کے ساتھ تمام سہولتوں سے مزین واش روم بنائے گئے ہیں اور پھر ان خیموں کے ساتھ میڈیکل کیمپوں کا بھی خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ مقامی باشندے مناسک حج کی ادائیگی والے ایام میں منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کی ہر سڑک، کونے، چوک، پارک اور خیمہ بستیوں کی جانب جانے والے ہر راستے پر کھانے کے پیکٹ، ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور جوسز ہاتھوں میں لئے حجاج کرام کی خدمت کے لئے مامور نظر آتے تھے۔ سعودی حکومت نے خود بھی جابجا ریفریجریٹر رکھوائے ہوئے تھے جو مشروبات، جوسز اور ٹھنڈے پانی کی بوتلوں سے ہر وقت بھرے رہتے۔ اور تو اور ٹریفک کنٹرول کرنے پر مامور سعودی پولیس کے اہلکار بھی اپنی ڈیوٹی کے دوران پیدل چلنے والے حجاج کرام میں کھانے کے پیکٹ اور مشروبات تقسیم کرتے دکھائی دئیے۔ اسی طرح پیدل چلنے والے حجاج کرام پر گرمی کی حدت کے اثرات کم کرنے کے لئے سعودی پولیس اہلکار اور مقامی باشندے ٹھنڈے پانی کی بوتلوں کے ذریعے چھڑکاﺅ کرتے جس سے یک گونہ راحت و آسودگی محسوس ہوتی۔ اسی طرح سعودی انتظامیہ کی جانب سے بھی سڑکوں کے دونوں کناروں پر پیدل حجاج کرام پر پانی کا سپرے کرنے کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا جس سے سفر کی صعوبتوں اور تھکان کا احساس کم ہو جاتا۔ اس کے برعکس ہمارے نجی ٹور اپریٹرز نے تو بڑے بڑے پیکجوں کے ساتھ حجاز مقدس بھجوائے گئے حجاج کرام کی منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں رہائش و خوراک کا سرے سے کوئی بندوبست ہی نہیں کیا تھا اور انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جنہیں مکہ مکرمہ سے متذکرہ تینوں مقدس مقامات پر پہنچانے کے لئے کسی ٹرانسپورٹ کا بھی بندوبست نہ کیا گیا چنانچہ ٹور اپریٹرز کے ذریعے جانے والی حجاج کرام کی اکثریت مکہ مکرمہ سے پیدل منیٰ اور عرفات تک پہنچی اور عرفات سے مزدلفہ بھی انہیں پیدل ہی جانا پڑا۔ مجھے یہ مشاہدہ کرتے ہوئے ذہنی کوفت بھی ہوئی کہ حجاج کرام ہجوم در ہجوم سخت گرمی اور حبس میں رات کے وقت بھی اور چلچلاتی دھوپ میں دن کے وقت بھی مناسک حج کی ادائیگی کے لئے منیٰ سے عرفات اور مزدلفہ پیدل جا رہے تھے۔ ان میں کئی ضعیف العمر افراد کے چہروں پر تھکان اور ضعف کے آثار نمایاں نظر آتے تھے۔ اسی طرح خواتین اپنے معصوم بچوں کو کندھے پر اٹھائے میل ہا میل کا سفر پیدل طے کرتی رہیں۔ اگر سعودی حکومت اور مقامی باشندوں نے گرمی کی حدت کم کرنے کے لئے پانی کے سپرے اور چھڑکاﺅ کا اہتمام نہ کیا ہوتا اور ان کے خورد و نوش کی طرف توجہ نہ دی ہوتی تو ان حجاج کرام کو کن کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑتا‘ یہ سوچ کر ہی جسم میں جھرجھری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ سرکاری انتظام کے تحت قرعہ اندازی کے لئے جانے والے حجاج کرام کی تو حکومت نے یقیناً نگہداشت کی، جن کے لئے خیموں کا بندوبست بھی تھا مگر ٹور اپریٹرز کے ذریعے جانے والے حجاج کرام کی نگہداشت کی ذمہ داری بھی تو وزارت مذہبی امور کو ادا کرنی چاہئے تھی جن کی اکثریت منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں سڑکوں، فٹ پاتھوں اور کھلے گراﺅنڈز میں چادریں بچھا کر سوتی رہی۔ ٹور اپریٹرز کو حجاج کرام کا کوٹہ بھی تو آخر وزارت مذہبی امور کی جانب سے ہی ملتا ہے جس کے اجرا کی کمشنوں سے لدی ہوئی داستانیں اکثر منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ یہ حجاج کرام بیچارے سرکاری حج سے دوگنا پیسے دے کر حجاز مقدس جاتے ہیں اور انہیں سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے اور کہیں بھی رہائش و خوراک کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ اگر ہماری وزارت مذہبی امور حجاج کرام کے لئے امسال بہتر سہولتوں کا کریڈٹ لے رہی ہے تو اسے ٹور اپریٹرز کے معاملات کی جانب بھی توجہ دینی چاہئے۔ ان کے لئے اچھے کھانوں کی ڈشیں دکھا کر تو اصل حقائق سے نظریں نہیں ہٹوائی جا سکتیں اور ان ڈشوں کے اہتمام میں تو سارا کمال سعودی انتظامیہ اور وہاں کے مقامی باشندوں کا ہے۔ آپ لہو لگا کر شہیدوں میں کیوں شامل ہو رہے ہیں۔