اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں خلاف ضابطہ تقرریاں کالعدم قرار دے دیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تقریباً76 ملازمین کی خلاف ضابطہ تقرریوں سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی، عدالت عظمی نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر 16 مئی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ 54 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے تحریر کیا اور پڑھ کر سنایا۔ فیصلہ سے گریڈ 19 تک کے افراد متاثر ہوں گے جب کہ اس کا اطلاق ہونے والی گریڈ ایک سے سات تک تقرریوں پر نہیں ہوگا۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی نے آئین اور قواعد کے خلاف تقرریاں کیں، جو اپائٹمنٹ کنسرن آف سروس رولز 2011، رولز 8, 4, (1) آئین کے آرٹیکل 208 کی خلاف ورزی ہے، فیصلے پر 45 دن میں عمل درآمد ہونا چاہئے، آئندہ تقرریاں این ٹی ایس کے ذریعے ہوں گی، عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ کسی کو بھی میرٹ کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اسلام آباد ہائی کورٹ جان بوجھ کر منظور نظر افراد کو نوازے گی تو عدل کا ادارہ داغ دار ہو گا، میرٹ کی پامالی سے عوام کا عدل کے ادارے سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ ہائی کورٹ میں پہلے ہی 200 ملازمین کام کر رہے ہیں اپنوں کے نوازنے کے لئے قواعد وضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے بھرتیاں کی گئیں۔ درخواست گزار کے وکیل عارف چودھری ودیگر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 150 کے قریب ملازمین ماثر ہوں گے، فیصلے کا اطلاق2011ء سے آج تک کی بھرتیوں پر ہو گا، فیصلے سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس انور خان کاسی کے بھائی ادریس کاسی بھی فارغ ہوں گے جو کہ ہائی کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار تعینات تھے۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کریں گے۔ بی بی سی کے مطابق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ان بھرتیوں سے متعلق جو ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کو دیکھ کر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان بھرتیوں سے متعلق بنائی گئی انتظامی کمیٹی نے قواعد وضوابط کا خیال نہیں رکھا۔2011ء سے ہونے والی ان بھرتیوں میں آئین کے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی کی گئی جو بھرتیوں سے متعلق دیئے گئے قواعد و ضوابط سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات اسسٹنٹ رجسٹرار عثمان میر کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جو عدالت عالیہ میں تعینات ہونے سے پہلے ایک نجی بینک میں ملازم تھے اس کے علاوہ عامر عبدالمجید کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو ریڈیو پاکستان میں گریڈ چار میں ملازم تھے جبکہ اْنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں گریڈ سترہ میں اسسٹنٹ اکاونٹ افسر تعینات کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ قواعدو ضوابط سے ہٹ کر کی گئی بھرتیوں سے ادارے کے تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ مختلف عہدوں کے لیے من پسند افراد کو بھرتی کرنے کی پالیسی کو کسی طور پر بھی نہیں سراہا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں خلاف ضابطہ تقریاں کا لعدم قرار دیدیں
Sep 27, 2016