اسلام آباد (این این آئی+ صباح نیوز) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ضیاء دور میں ریاست نے دانستہ طور پر شدت پسندی کو فروغ دیا اور صوفیاء کی سرزمین جس کی خصوصیات محبت، شفقت اور برداشت کی روایات پر مبنی تھی کو شدت پسندانہ ذہنیت اور سوچ رکھنے والا معاشرہ بنا دیا گیا اور افسوس کی بات ہے آج 70 سال گزرنے کے باوجود ہم اپنی صحیح سمت کا تعین نہیں کر سکے۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے ان خیالات کا اظہار سینٹ کی دفاعی کمیٹی کی جانب سے منعقدہ سیمینار جس کا عنوان ’’پاکستان کے 70 سال‘‘ تھا کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ رضا ربانی نے کہا آمر ضیاء دور میں طلباء تنظیموں پر پابندی لگانے سے ترقی پسندانہ سوچ کا گلا گھونٹ دیا گیا اور جمہوری عمل میں اہم کردار ادا کرنے والے ان پلیٹ فارمز کا خاتمہ کر دیا گیا، اس کی جگہ تعلیمی اداروں میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو آزادانہ موقع فراہم کیا گیا تاکہ وہ تعلیمی اداروں میں اپنے نظریات کو فروغ دے سکیں۔ ایک غلط تاثر یہ بھی دیا جاتا ہے کہ ہماری ثقافت عرب ثقافت ہے۔ انہوں نے کہا ہماری ثقافت میں سندھ، بلوچستان، خیبر پی کے اور پنجاب کی ثقافت کے خدوخال ہیں اور ان ہی سے پاکستانی ثقافت جنم لیتی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے اس امید کا اظہار کیا قوم سیاسی، سماجی اور اقتصادی سطح پر درپیش مسائل پر قابو پائے گی۔ ہماری عوام نے آمروں کے ہاتھوں قید وبند کی تکلیفیں برداشت کیں تاہم انہوں نے جمہوری جدوجہد کے ذریعے غاصبوں سے چھٹکارا حاصل کیا اور جمہوریت کو بحال کرنے کیلئے مصائب کے سمند عبور کیے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جمہوریت کا علم بلند کیا۔ انہوں نے کہا 70 سال بعد ہم بطور ریاست آج بھی راستے کی تلاش میں ہیں، ہم آج بھی فیصلہ نہیں کر پائے جمہوریت اچھی ہو گی یا آمریت، ہمیں پارلیمانی نظام چاہئے یا صدارتی نظام؟ ہم فیصلہ نہیں کر پائے 73ء کا آئین جاری رکھا جائے گا یا ایک بار پھر اسے معطل کر دیا جائے گا۔ آج تک ہم فیصلہ نہیں کر پائے ملک میں سویلین کی بالادستی رہے گی یا آمریت کی۔ صباح نیوز کے مطابق چیئرمین سینٹ نے کہا عوام نے کامیاب جمہوری جدوجہد کے ذریعے ہر دورکے غاصبوں کو باہر پھینک دیا، جمہوریت کی بحالی کے لئے عوام نے جانوں کی بھی پروانہ کی، 70 سال کے بعد بطور ریاست آج بھی راستے کی تلاش میں ہیں، اب بھی فیصلہ نہیں کر پائے پارلیمانی نظام چاہیے یا صدارتی؟ متفقہ آئین میں اختیارات کے تعین کے باوجوداب بھی سویلین یاآمرانہ بالادستی کا سوال اٹھایا جاتا ہے جبکہ آئین کی ’’حکمرانی حثیت‘‘ شک و شکوک سے بالاتر ہے عوام ملکی سلامتی کا تحفظ کرنا جانتے ہیں قوم کے تعاون ہی سے دہشت گردی انتہاپسندی پر قابو پایا جاسکتا ہے ضیاء دورمیں ریاست میں انتہاپسند کی ثقافت کو فروغ دیاگیا اور رواداری، شفقت اور بھائی چارہ کی ثقافت کو دبایا گیا، قوم اپنے اقدار کا تحفظ کرنا بھی جانتی ہے، وہ انتہاپسند قوتوں کی غلامی سے موت کو ترجیح دیںگے۔ چیئرمین سینٹ نے طلبہ کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں جامعات کے طلبہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے ملوث ہونے جیسے حالات ریاست کے دانستہ طور پر کیے گئے غلط فیصلوں کے باعث پیدا ہوئے۔ ہمارے لوگوں نے آمروں کے ہاتھوں بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے تاہم عوام نے کامیاب جمہوری جدوجہد کے ذریعے ان غاصبوں کو باہر پھینک دیا اور اس مقصد کے لئے تمام مشکلات کو عبورکرتے ہوئے جانیں بھی قربان کرنا پڑیں۔ ریاست نے جنرل ضیا کے دور میں دانستہ طلبا یونین پر پابندی عائد کی لیکن مذہبی تنظیموں کو یونیورسٹیز میں کھلی چھوٹ دی گئی۔ آج طلبا مباحثوں، مشاعروں اور ادبی سرگرمیوں میں کمزور ہیں جسکی وجہ سے فیض، جالب اور جون ایلیا کے بعد کوئی معروف شاعر نہ پیدا ہو سکا، ریاست کے فیصلے کے باعث ہم عدم برداشت، انتہا پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کا معاشرہ بن رہے ہیں۔