عمران خان کی حکومت کوکون بچائے گا؟

احمد کمال نظامی
تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان ماہ اکتوبر میں بڑی گھمسان کی جنگ ضمنی انتخاب کے نام پر ہونے والی ہے۔ سابق ادوار میں بھی مختلف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں ضمنی انتخاب ہوتے رہے ہیں لیکن وہ انتخاب حکمرانوں کے درمیان ہی ہوتے رہے اور انتخابی میدان چاہے وہ ضمنی انتخاب کا ہی کیوں نہ ہو، وہ ایسے سیاسی ’’پہلوانوں‘‘ کو اکھاڑے میں اتارتے تھے جن کا پولیس اور بیوروکریسی سے کام لینا ان کے دائیں ہاتھ کا کام تھا۔ لیکن اب حالات یکسر مختلف ہیں۔ حکمران جماعت تحریک انصاف بھی نئی ہے اور رموز مملکت سے ناآشنا بھی جبکہ مقابلہ ان کے ساتھ ہے جو حکومتی تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ پولیس اور بیوروکریسی آج بھی سابق حکمرانوں کی آبادکی ہوئی کھیتی کا درجہ رکھتی ہے۔ نئی حکمران جماعت رموزمملکت سے ناآشنا ہے۔ عوامی حلقوں کی طرف سے حکمرانوں پر مختلف عوامل کی بنا پر تنقید کے بزوں کی یوں بارش ہو رہی ہے جیسے حکمران جماعت تحریک انصاف اپنے اقتدار کا ایک ماہ نہیں، دو سال مکمل کر چکی ہو اور مسائل و مصائب کے سیاہ بادلوں نے حکمرانوں پر بجلی گرانی شروع کر دی ہو۔ یوں اکتوبر میں ہونے والے قومی اور صوباـئی حلقوں کے ضمنی انتخاب پرانے حکمرانوں اور نئے حکمرانوں کا سخت امتحان ہو گا اور ان ضمنی انتخابات کے نتائج اس امر کا تعین بھی کریں گے کہ حکمران اپنی مدت اقدار مکمل بھی کر پائیں گے؟۔ فیصل آباد میں تاندلیانوالہ میں جو ضمنی انتخاب ہو رہا ہے وہ مسلم لیگ(ن) کی بجائے ایک ہی خاندان کے درمیان ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ(ن) سے وابستہ دھڑا پاور فل نظر آتا ہے اور تحریک انصاف سے وابستہ گروپ حکمران جماعت سے تعلق کے باوجود اپنے پاؤں پر کھڑا دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذا 14اکتوبر کو جو ضمنی معرکہ ہو گا اس میں مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک مسلمہ حقیقت ہے اور عمران خان اس ووٹ بینک کو توڑنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف کی سزا کی معطلی نے مسلم لیگ(ن) کے ووٹ بینک کو مزید مضبوط کر دیا ہے اور میاں محمد نوازشریف غالباً اکتوبر کے پہلے عشرہ میں ہی اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ جب انتخابی مہم کا آغاز کریں گے تو ان کا وہی بیانیہ ہو گا جس میں کوئی لچک نظر نہیں آئے گی۔ میاں محمد نوازشریف کی رہائی کے موقع پر عوام نے جس والہانہ انداز میں اپنے قائد کا استقبال کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) ایک ایسی پنجاب میں مضبوط پارٹی ہے کہ تحریک انصاف حکمران ہوتے ہوئے بھی عوامی تائید سے محروم ہے اور حکمران ہوتے ہوئے عوام کی توجہ کی ہمدردی حاصل نہیں کر سکی کہ اس نے جو دعوے اور وعدے کئے اس کے اقدامات اس کے برعکس نظر آتے ہیں اور جس رفتار سے مختلف ٹیکس عاـئد کئے جا رہے ہیں اور گرانی و مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے وہ مسلم لیگ(ن) کے لئے نیک شگون اور تحریک انصاف کے لئے مخالف ہواؤں کا سونامی ہی کہہ سکتے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) کی کامیابی یوں بھی نظر آ رہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے عمران خان کی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیا اور عوام میں ایسی تحریک چلاـئی کہ مسلم لیگ(ن) کے اس نعرہ کو عوام اپنا نعرہ قرار دے چکے ہیں اور میاں محمد شہبازشریف نے نہ صرف حکمران پارٹی کا منی بجٹ مسترد کر دیا ہے۔ گیس، بجلی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے جو نفرت کی لہر جنم لے چکی ہے۔ اس نے عمران خان کی شہرت کے گراف کو اس تیزی سے گرا دیا ہے کہ حکمران جس تبدیلی کی بات کر رہے تھے عوام کو وہ تبدیلی یوں دکھائی دیتی ہے کہ حکمران جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اس سے وہ اور مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ لہٰذا جب ضمنی انتخاب کی انتخابی مہم چلے گی تو میاں محمد نوازشریف اور مریم نواز عوام میں مقبول ہونے کے علاوہ ان کے دلوں کی دھڑکن بن جائیں گے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اپنے تین ماہ کے دھرنے سے جو مقاصد حاصل نہ کر سکے، وہ میاں محمد نوازشریف اور مریم نواز اپنی ضمنی انتخاب کی مہم میں حاصل کر لیں گے اور اگر مسلم لیگ(ن) ضمنی انتخاب کے بعد میاں محمد نوازشریف نے عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا تو یہ مطالبہ حکومت مخالف تحریک کو اس قدر تقویت فراہم کرے گا۔ میاں محمد نوازشریف کی حکومت کو آصف علی زرداری نے بچا لیا تھا اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو کون بچائے گا؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔

ای پیپر دی نیشن