معذور ووٹروں اور انتخابی مشاہدہ کاروں کیلئے پولنگ سٹیشنزعموماً ناقابل رسائی تھے

اسلام آباد(خصوصی نمائندہ)خواجہ سراؤں، خواتین اور معذور افراد کی انتخابی عمل میں سہولت کیساتھ شرکت کیلئے ترقی پسندانہ قانون سازی اور پالیسی اقدامات اٹھانے کے باوجود معاشرے کے ان طبقات کو عام انتخابات 2018 کے دوران اپنے ووٹ اور مشاہدہ کاری کے عمل میں حصہ لینے کے حق کو دیگر طبقات کیساتھ برابری کی بنیاد پر استعمال کرنے کے حوالے سے نامناسب رویوں اور رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ کولیشن فار انکلیوسو پاکستان (سی آئی پی) کی طرف سے عام انتخابات 2018 کے مشاہداتی جائزے کے ابتدائی نتائج میں بتایا گیا ہے کہ معذور ووٹروں اور معذور انتخابی مشاہدہ کاروں کیلئے پولنگ سٹیشنز عموماً ناقابل رسائی تھے تاہم پولیس و سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور الیکشن کمیشن کے عملے کامعذور افراد کے ساتھ رویہ خاصا مددگار رہا جس کی وجہ سے معذور افراد کو الیکشنز ایکٹ 2017 کے تقاضوں کے مطابق ووٹ کاسٹ کرنے میں سہولت ملی۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق معذور افراد کو پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت دیا جانا درست قدم تھا تاہم پوسٹل بیلٹ حاصل کرنے کے پیچیدہ مراحل کی وجہ سے کئی معذور افراد نے اس عمل کو سہولت کی بجائے ایک زحمت قرار دیا۔ معذور ووٹروں کے لیے ترس یا ترحمی پر مبنی رویے کے حوالے سے مزید حقائق تفصیلی رپورٹ کا حصّہ ہوں گے جوانتخابی عمل میں شریک معذور مشاہدہ کاروں اور ووٹرز کے تجربات پر مبنی ہوگی۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے پولنگ سٹیشنوں پر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور انتخابی عملے نے کوئٹہ اور پشاور کے پولنگ اسٹیشنوں کے مقابلے میں خواجہ سرا ووٹروں سے زیادہ احترام، تعاون اور ترجیحی رویہ اختیار کیا جبکہ کوئٹہ اور پشاور کے پولنگ سٹیشنوں ایسے ووٹروں کو ہراساں کئے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔

ای پیپر دی نیشن