دوسری طرف غور کریں تقسیم ہند کے منصوبے کی تجویز بھی انہی ملاقاتوں کے درمیان مولانا مودودیؒ نے تحریر کی۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد کے بعد برصغیر کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ گفتگو مولانا مودودیؒ کی لازمی ہوئی ، علامہ اقبالؒ نے اسے سراہا تبھی تو ان کا اعتماد مولانا مودودیؒ پر اتنا بڑھا کہ انہوں نے نہ صرف مولانا مودودیؒ کی ’’دارالسلام‘‘ کی تجویز کو قبول کیا بلکہ چھ ماہ ان کے ساتھ گزارنے کی حامی بھی بھر لی، مولانا مودودیؒ کی ان تجاویز کو بھی مفکر پاکستان کی حمایت حاصل رہی ، کم از کم ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ کا پلان علامہ اقبالؒ کی نظر سے ضرور گزرا ہو گا اور اس پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہو گی، اگر علامہ اقبالؒ کو اس پلان سے اختلاف ہوتا تو وہ ’’دارالسلام‘‘ کے منصوبے میں کبھی بھی مولانا مودودیؒ کے ساتھ شراکت و تعاون کا اقرار نہ کرتے……
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تقسیم ہند کا مندرجہ ذیل پلان پیش کیا تھا۔
پہلا خاکہ:۔دو یا زائد قوموں کے ملک میں ایک جمہوری ریاست بنانے کی صحیح اور منصفانہ صورت یہ ہے اولاً وہ بین الاقوامی وفاق (INTERNATIONAL FEDERATION)کے اصول پرمبنی ہو یا دوسرے الفاظ میں وہ ایک قوم کی ریاست نہیں بلکہ متوافق قوموں کی ایک ریاست (A STATE OF FEDERATED NATIONS) ہو۔
ثانیا ً اس وفاق میں شریک ہونے والی ہر قوم کو تہذیبی خود اختیاری(CULTURAL AUTONOMY)حاصل ہو یعنی ہر قوم اپنے مخصوص دائرہ زندگی میں اپنے گھر کی تنظیم واصلاح کے لئے حکومت کے اختیارات استعمال کرسکے۔
ثالثاً مشترک وطنی معاملات کیلئے اس کا نظامِ عمل مساویانہ حصہ داری(EQUAL PARTNERSHIP) پر تعمیر کیا جائے۔
ہندوستان کے حالات کو سیاسی نقطہ نظر سے سمجھنے اور حل کرنے کی جن لوگوں نے کوشش کی ہے انہوں نے یہ بات تو تسلیم کرلی ہے کہ اس ملک کیلئے وحدانی (UNITARY)طرز کی حکومت موزوں نہیںہے بلکہ یہاں ایک سٹیٹ اگر بن سکتا ہے تو وہ صرف وفاقی اصولوں پر بن سکتاہے ۔مگر افسوس یہ ہے کہ وہ حالات کے صرف ایک پہلو کو دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں، دوسرا پہلوان کی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا ہے ۔انہوں نے صرف اس وقت تک واقعات کو دیکھا اور سمجھا کہ یہاں خودمختار ریاستیں اور برٹش انڈیا کے صوبے ایک دوسرے سے مختلف ہیںاور خود صوبوں کی زبان، روایات، معاشرت اور عمرانی مسائل میں کافی تفاوت ہے اس لئے وہ صرف اس نتیجے تک پہنچ سکے کہ ان سب کو ایک مرکزی اقتدار کے بالکلیہ تابع بنا دینادرست نہیں ہے بلکہ ان کی اندرونی خود مختاری کو برقرار رکھ کر ان کے درمیان وفاقی تعلق قائم کرنا چاہئے لیکن واقعات کے اس پہلو پر ان کی نگاہ نہیں پہنچی کہ یہاں ریاستوں اور صوبوں کی طرح قوموں کے درمیان بھی اصول،طرز زندگی،روایات،قومی اور ضروریاتِ اجتماعی میں کافی تفاوت ہے ۔اس حقیقت کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے انہوں نے مختلف قوموں کو ایک وحدانی طرز کی حکومت میں باندھ کر رکھ دیا۔ درآنحالیکہ جو وجود ریاستوں کے معاملے میں وفاقی اصول اختیار کرنے کے مقتضی ہوتے ہیں ان سے زیادہ قومی وجوہ قوموں کے معاملہ میں وفاقی اصول اختیار کرنے کے مقتضی ہیں۔
وفاق کی وضاحت کرنے کے بعد سید مودودی کہتے ہیں: ’’وفاق کی اس روح کو سمجھ لینے کے بعدکسی سیاسی فہم وبصیرت رکھنے والے شخص کیلئے اس حقیقت کا ادراک کر لینا مشکل نہیں ہے کہ اس نوعیت کا وفاق جس طرح ریاستوں (یعنی الگ الگ جغرافیائی خطے والی جماعتوں )کے درمیان ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح قوموں (یعنی ایک ہی جغرافیائی خطے میں رہنے والی مختلف المذاہب یا مختلف التمدن جماعتوں) کے درمیان بھی ہو سکتا ہے۔البتہ اصول وفاق کا انطباق(APPLICATION) دونوںصورتوں میں مختلف طرز پر ہوگا۔متوافق ریاستوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کی تقسیم جس طرح کی جاتی ہے، متوافق قوموں کے درمیان وہ اس سے مختلف طریقے پر ہوگی۔پہلی چیز کو ہندوستان میں صوبائی خوداختیاری سے تعبیر کیا گیا ہے ۔دوسری چیز کو ہم تہذیبی خود اختیاری(CULTURAL AUTONOMY)سے تعبیر کرتے ہیں، اس کے بنیادی اصول بھی انہوں نے متعین کر دیئے جن کی تفصیل ہماری کتاب ’’آفتاب علم و عرفان مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘‘ میں درج ہے۔
دوسرا خاکہ:۔اگر بین الاقوامی وفاق کی یہ صورت قبول نہ کی جائے تو دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف قوموں کے الگ الگ حدودِ اراضی مقرر کردیئے جائیں جہاں وہ اپنی جمہوری سٹیٹ بنا سکیں۔ 25سال یا اس سے کچھ کم وبیش مدت تبادلہ آبادی کے لئے مقرر کردی جائے۔ سٹیٹ کو زیادہ سے زیادہ اندرونی خودمختاری دی جائے اور وفاقی مرکز کے اختیارات کم ازکم رکھے جائیں۔ اس صورت میں ہم غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک وفاقی سٹیٹ بنانے پر نہ صرف راضی ہوجائیں گے بلکہ اس کو ترجیح دیں گے۔
میرے دوست ڈاکٹر عبدالطیف صاحب نے حال ہی میں ہندوستان کے تہذیبی مستقبل (CULTRAL FUTURE OF INDIA) پر جو مقالہ حیدر آباد سے شائع کیا ہے وہ ہندوستان کی مختلف قوموں کے درمیان حدودِ اراضی کی تقسیم کا بہترین نقشہ پیش کرتا ہے، یہ ایک منصفانہ تقسیم ہے جس کی رو سے مشرقی بنگال، حیدر آباد، بھوپال، جونا گڑھ، جاورہ، ٹونک، اجمیر، دہلی، شمالی و مغربی پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے حلقے مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ 25 سال کی مدت میں ہندوستان کے دوسرے خطوں سے ہجرت کر کے مسلمان ان حلقوں میں چلے جائیں، بقیہ ہندوستان میں اگر اچھوت اپنی الگ قومیت بنانا چاہیں تو ان کے لیے بلحاظ ان کی آبادی کے مستقل رقبے مخصوص کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ گاندھی جی خود کشی کی دھمکی دے کر ان کی آزادی رائے کو پھر نہ سلب فرمائیں۔ اسی طرح سکھوں کو بھی ان کی آبادی کے لحاظ سے ایک رتبہ دیا جا سکتا ہے۔
تیسرا خاکہ:اگر یہ صورت بھی منظور نہ ہو تو پھر بطور آخر ہم یہ مطالبہ کریں گے کہ ہماری قومی ریاستیں الگ بنائی جائیں، اور ان کا علیحدہ وفاق ہو، اس طرح ہندو ریاستوں کا بھی ایک جداگانہ وفاق ہو اور پھر ان دو یا زائدہ وفاقی مملکتوں کے درمیان ایک طرح کا تحائف (CONFEDERACY) ہو جائے جس میں مخصوص اغراض مثلاً دفاع اور مواصلات اور تجارتی تعلقات کے لیے مقرر شرائط پر تعاون ہو سکے۔
مولانا ابو الا علیٰ مودودیؒ کے اس پلان کو پڑھنے کے بعد یہ بات تاریخی طور پرثابت ہو جاتی ہے کہ تقسیم ہند اور دو قومی نظریہ کی تشکیل کی بنیاد میں ان کا اہم کردار ہے۔ جہاں تک کانگریس اور اس کی ریشہ دوانیوں کی بات ہے، مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے پہلے ہی ان کو پہچان چکے تھے۔ میرا خیال ہے کہ سید مودودیؒ نے جس طرح کانگریس کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا اس طرح برصغیر کا کوئی لیڈر یہ فریضہ سرانجام نہ دے سکا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی وفات کے بعد نفاذ اسلام سے خوف زدہ مغرب نواز اور کمیونسٹ افراد نے مولانا مودودی ؒ پر الزامات لگائے کہ وہ کانگریس کے حامی تھے۔ اس سے بڑا کذب اورالزام کیا ہوسکتا ہے ؟ اس جھوٹی اور بے بنیاد مہم کا نتیجہ ہے کہ آج بھی بے شمار پاکستانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو کانگریس کاحامی اور پاکستان کا مخالف سمجھتے ہیں حالانکہ یہ حقیقت کے برعکس، سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈہ ہے۔
جہاں تک کانگریس اور متحدہ ہندوستان کے حماتیوں کا تعلق ہے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان کو بے نقاب کرنے کے لیے مسلسل کئی سالوں تک قلمی جہاد کیا۔ جس کی تفصیل میری کتاب میں موجود ہے۔ یہاں صرف ایک اقتباس پر اکتفا کرتا ہوں، مولانا لکھتے ہیں:
کانگریس اور مہا سبھا۔ ’’فطری حیثیت سے دونوں میں نہ پہلے فرق تھا نہ آج ہے۔ دونوں وطنی قومیت کی علمبردار ہیں، دونوں ملک میں قوموں کے امتیازی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں، دونوں علیحدگی کے ہر رحجان کی دشمن ہیں حتیٰ کہ کسی معاملہ میں وہ مسلمانوں کے جداگانہ مفاد کا نام تک سننے کی روادار نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کانگریس جہاں ’’ہندوستان‘‘ کالفظ استعمال کرتی ہے وہاں مہاسبھا ہندوئوں کا لفظ استعمال کرتی ہے مگر معنی دونوں کے ایک ہیں۔ ان دونوں جماعتوں میں اب اگر کوئی فرق باقی ہے توہ صرف یہ ہے کہ ایک ہندو مہاسبھاہے اور دوسری انڈین نیشنل کانگریس۔ مہاسبھا صریح طور پر ہندئوں کی جماعت ہے۔ کوئی مسلمان اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔ نہ وہ مسلمانوں کو اپنی طرف دعوت دے سکتی ہے نہ مسلمانوں میں جاکر ماس کانٹکٹ کر سکتی ہے، نہ اس کو مولانا ابو الکلام کی خدمات حاصل ہوسکتی ہیں کہ مسلمانوں کی جماعت میں کمزور کیریکٹر کے آدمیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائیں اور اس کے آستانہ پر جھکا دیں، نہ اسے ڈاکٹر ذاکر حسین کی خدمات میسر آسکتی ہیں کہ واردھا اسکیم تیار کریں، نہ وہ خان عبدالغفار خان سے کام لے سکتی ہے ۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان تمام الزمات کو رد کرتے ہوئے خود کہا تھا۔
’’کہا جاتا ہے کہ یہ جماعت در پردہ کانگریسیوں کی جماعت ہے اور اکھنڈ ہندوستان کی حامی ہے اور یہ لوگ آخر تک پاکستان کے مخالف رہے ہیں۔ یہ تمام باتیں سپید جھوٹ ہیں۔ آج ملک میں ہزاروں بلکہ لاکھوںآدمی ایسے موجود ہیں جنہوں نے ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے۔ خصوصاً ’’سیاسی کشمکش حصہ اول ودوم‘‘ اور ’’مسئلہ قومیت‘‘ جنہوں نے پڑھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس وقت آج کے بڑے بڑے مخالفین کانگریس کو کانگریسی تحریک کے نقصانات اور متحدہ قومیت کی غلطیوں کا ہوش تک نہیں تھا اس وقت میں نے مسلمانوں کو ان سے آگاہ کیا اور متحدہ قومیت کی رو میں بہنے سے مسلمانوں کو روکنے میں میری کوششوں کا دخل اگر کسی سے زیادہ نہیں توکسی سے کم بھی نہیں۔ پھر آج بجزناواقف لوگوں کے اور کون اس جھوٹ کو باورکرے گا کہ میں کانگریس اور اس کی وطنی قومیت کے ساتھ کوئی تعلق رکھتا ہوں ۔‘‘ (مولانا مودودیؒ کی تقاریر حصہ دوئم از ثروت وصولت)
یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مولانا کی تحریروں کو پمفلٹ کی صورت میں شائع کر کے مسلم لیگ اپنے جلسوں اور جلوسوں میں بانٹتی تھی تاکہ دو قومی نظریہ کا صحیح ادراک قوم کو ہو اور مسلمان کانگریس کے اصل چہرے کو پہچان سکیں، تحریک پاکستان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے کردار کو نمایاں کرنا اور نصاب میں شامل کرنا از حد ضروری ہے، اس کام کو ’’جماعت اسلامی‘‘ نے پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا کیونکہ وہی مودودیؒ کی فکر کی وارث ہے۔
اگر مولانا مودودیؒ کی خدمات کو نئی نسل تک پہنچایا جائے تو نئی نسل میں انقلابی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔ (ختم شد)