’’دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخابات‘‘ ماضی کے دریچوں سے جھانک کر دیکھیں تو یہاں ایک دینی مدرسہ رحیمیہ تھا‘ جس کے فرش پر بیٹھ کر صوفی درویش شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا‘ اس کے مندرجات میں اسلامیان ہند کا دکھڑا اور درد تھا۔ انہوں نے لکھا’’ ہندوستان میں ہندو مرہٹوں کی جنونیت اور زور بڑھتا جا رہا ہے‘ جو اس خطے پر قابض ہو کر ہندو راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے لیڈر بالاجی باجی راؤ کی شہنشاہیت کا اعلان کر دیں‘ ان کا سرکچل کر مسلمانوں کو شر کی بڑھتی ہوئی قوت سے نجات دلانا بہت ناگزیر ہے۔ میں آپ کو کلمہ طیبہ کے رشتے سے دعوت و ترغیب دیتا ہوں‘ اپنی سپاہ اور فوجی قوت کے ساتھ یہاں آ کر ہمیں اس فتنہ سے نجات دلاؤ اور مرہٹہ اسلام دشمنوں کو ہمیشہ کے لئے سبق سکھا دو۔‘‘ شاہ ولی اللہؒ کا خط موصول ہوتے ہی احمد شاہ ابدالی سپاہ سمیت ہندوستان آیا اور پھر پانی پت کی تیسری لڑائی کا احوال بھی مؤرخ کی قلم سے پوری چشم کشائی کے ساتھ رقم ہے۔ مرہٹہ سردار اپنے ہمراہ ابرہہ کی طرح ہاتھیوں کی فوج ظفر موج لے کر آئے تھے جبکہ احمد شاہ ابدالی کی سپاہ کے پاس کلمہ طیبہ کا ایمانی جذبہ موجود تھا۔ چشم فلک نے دیکھا اس جنگ میں مرہٹوں کو وہ شکست فاش ہوئی کہ کم و بیش ایک لاکھ مرہٹہ نوجوان واصل جہنم ہوئے اور ہاتھیوں کی فوج اپنے ہی سپاہیوں پر چڑھ دوڑی۔ خود ہندو مورخین کا کہنا ہے لڑائی کے بعد مہاراشٹر کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں صف ماتم نہ بچھ گئی ہو۔
تاریخ یہ حقیقت بتانے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی کہ اس کے بعد مرہٹہ سرداروں نے کبھی ہندوستان پر حکمرانی کا خواب نہ دیکھا۔ ہاں تقسیم کے بعد جب ہندوستان میں بھارت کے نام سے نام نہاد سیکولر ملک قائم ہوا تو مرہٹے اس کی فوج میں جوق در جوق شامل ہوگئے۔ اس کے پس پردہ پانی پت کی تیسری لڑائی کے زخم چاٹتے ان کے بزرگوں کی یہ وصیت موجود تھی کہ وقت آنے پر پاکستان سمیت خطے کے تمام مسلمانوں سے خونریز بدلہ ضرور لینا۔ یہی وجہ ہے آج بھارتی فوج میں ہندو مرہٹوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ جن کا باطل خون آج بھی احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں شکست فاش پر کھولتا رہتا ہے اور وہ پاکستان کی جانب کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ موجودہ بزدل بھارتی آرمی چیف کی یکے بعد دیگرے دو گیدڑ بھبکیاں بھی پاکستانی قوم کو اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر دیکھنا چاہئیں۔ یہی نہیں بلکہ متعصب ہندو نسلیں آج تک 712ء میں محمد بن قاسم کے باب الاسلام سندھ میں عسکری داخلے اور 1000ء میں محمود غزنوی کی باب خیبر سے عسکری آمد کے واقعات کو بھی نہیں بھولیں اور پھر سومنات میں سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے محمود غزنوی کے کہے ہوئے جملے ’’میں بت شکن ہوں‘ بت فروش نہیں‘‘ کی کاٹ کو بھی فراموش نہ کر سکیں‘ لیکن ان سارے حالات و واقعات میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہند کے مسلمانوں کی حریت پسندی اور عسکری جبلت کے خلاف کھولنے اور کڑھنے والی متعصب ہندو قوم نے کبھی اپنے جمود پذیر بزرگوں کے عادات و خصائل پر غور نہیں کیا جو لڑنے اور مزاحمت کرنے کی صلاحیتوں سے یکسر عاری تھے‘ انہیں تو ذات پات کی تمیز سے ہی فرصت نہیں تھی۔ جب محمد بن قاسم اور اس کے کلمہ گو سپاہی سندھ میں وارد ہوئے تو یہ بدتہذیبی دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ راجہ داہر نے اپنی سگی بہنوں کے ساتھ شادیاں کر رکھی تھیں‘ کوئی نیچ ذات کا ہندو شودر اگر آنکھ بھر کر کسی اونچی ذات کے برہمن ہندو کو دیکھ لیتا تو اس کی آنکھوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیتے تھے کہ اس نے اپنی ناپاک نظروں سے متبرک اور مقدس برہمن کو کیوں دیکھا۔ اس کے مقابلے میں کلمہ گو مسلمان اپنے ہمراہ رسول پاک ؐ کے آخری خطبہ کا درس لے کر آئے تھے‘ جس میں انسانیت کو مخاطب کر کے کہا گیا کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت نہیں‘ سب انسان برابر اور آدم کی اولاد ہیں۔ صرف تقویٰ یعنی نیکی اور خیر کا جذبہ ہی انسان کو برگزیدہ بناتا ہے اور جو متقی ہو وہ انکساری اور عاجزی بھی اختیار کرتا ہے۔ اسی عظیم درس پر ہر ذات کے ہندو بالعموم اور شودر بالخصوص بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنے لگے اور مسلمان صوفیوں نے اس دارلحرب میں ایمان کی جگمگ کر دی‘ حضور سرکار غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی نے جب دس لاکھ ہندوؤں کو حلقہ بگوش اسلام کیا تو دراصل پاکستان اسی وقت قائم ہو گیا تھا۔ اس سے بھی کہیں پہلے جب ہندوستان کے ساحل مالابار پر حجاز سے تاجروں نے آنا جانا شروع کیا تو انہی دنوں رسول اکرمؐ سے شق القمر کا معجزہ سرزد ہوا‘ جو اس ہندو ریاست کے راجا اور اس کی ملکہ نے رات کے وقت محل کی چھت پر براجمان کھلی آنکھوں سے دیکھا‘ اس کی تصدیق ہوتے ہی راجا اور ملکہ دونوں مسلمان ہو گئے اور ان کے پیچھے رعایا بھی اسلام قبول کر گئی۔ اسی لئے قائداعظم نے کہا پاکستان اسی دن قائم ہو گیا تھا‘ جب اس خطہ کا پہلا ہندو اسلام کی دولت ایمانی سے سرفراز ہوا۔
تاریخ کی روحانی اقدار بتاتی ہیں کہ پاکستان اس خطہ ارضی پر ایک زندہ حقیقت کی صورت قائم ہوا اور اسے خدانخواستہ ختم کرنے کی باتیں سوائے مجذوب کی بڑ کے اور کچھ بھی نہیں۔ ہندوستان کے بہت سے لیڈروں نے بھی تاریخ کی پیشانی پر لکھا ہوا یہ سچ بولا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے‘ سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے مینار پاکستان میں رکھی ہوئی مہمانوں کی کتاب میں متذکرہ سچ لکھ کر اس تاریخی مغالطے کا ازالہ کیا کہ خاکم بدہن پاکستان کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہی سچ پہلی مرتبہ گاندھی جی نے بھی بولا تھا۔ جنہوں نے تقسیم کے بعد بھارتی لیڈر شپ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کی جانب سے پاکستان کے قانونی اثاثے روکنے پر مرن برت رکھتے ہوئے کہا تھا‘ اب پاکستان بن گیا ہے تو اسے دل و جان سے ہمسایہ ملک کی حیثیت میں قبول کر لینا چاہئے‘ لیکن اس پر بھی متعصب ہندو لیڈروں نہرو اور پٹیل نے پاکستان کو ادھورے اثاثہ جات دئیے تھے۔
متعصب ہندو سیاسی لیڈر شپ کی اگر نشاندہی کی جائے تو یہ روایت پنڈت موتی لال نہرو سے چلتی ہوئی ان کے بیٹے جواہر لال نہرو سے ہوتے ہوئے اندرا گاندھی اور پھر مودی تک آتی ہے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد نہرو اور پٹیل نے اس نوزائیدہ اسلامی ملک کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا تھا‘ دہلی کے ایک جلسہ میں نہرو نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان چند ماہ کا کھیل ہے‘ پھر انہی کی ایماء پر دہلی میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا‘ اس پر مولانا ابو الکلام آزاد ایسا کانگریسی لیڈر بھی بلبلا اٹھا۔ شاید اس وقت ان کے سامنے ہندو کا متعصب چہرہ کھل کر آ گیا تھا‘ وہ خود بھی نہرو اور پٹیل کی زیادتیوں کا شکار ہوئے اور دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں کو خطاب کرنے کے لئے پہنچے۔ بولے اے مسلمانو! کیوں گھبراتے ہو‘ یہ وہی گنگا اور جمنا ہے‘ جہاں تمہارے بزرگوں نے وضو کئے تھے‘ مت گھبراؤ اور استقامت اختیار کرو۔
مولانا کی اس تقریر کا کوئی فائدہ نہ ہوا‘ کیونکہ اب وقت گزر چکا تھا۔ ہندو اپنے پورے چہرے اور ناپاک باطن کے ساتھ سامنے آ چکا تھا۔ مولانا خاموش ہو گئے‘ غلطیاں انہوں نے خود کی تھیں‘ تاہم ایک مرتبہ بیرونی دورے پر جاتے ہوئے ان کا جہاز کراچی ائرپورٹ پر رکا تو وہ پاک سرزمین پر قدم رنجہ نہ ہوئے۔ پاکستانی اخبار نویسیوں نے جہاز میں جاکر پوچھا‘ مولانا پاکستان بن چکا اب آپ کیا کہتے ہیں؟ فرمایا پاکستان ایک تجربہ ہے، آپ اسے کامیاب بنائیں،گویا وہ اس وقت اس نوزائیدہ اسلامی ملک کے لیے اچھی خواہشات رکھتے تھے۔
تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ متعصب ہندوؤں کا گروہ نسل در نسل اب بھی اس خطہ کے مسلمانوں سے مسلم فاتحین کے ہاتھوں پے در پے شکستوں کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ موجودہ متعصب ہندو نسل مودی کی نہیں بلکہ پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے پیروکار ہے، جن کی زندگی کا مقصد پاکستان کو نیچا دکھانا اور سبق سکھانا ہے۔ اس خطہ کے مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کا وجود انہیں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ پاکستان دشمنی کا خمیر ان کے خون سے اٹھا ہے اور یہ بدترین رویہ ودیعت کرتے ہوئے ان کے بزرگوں نے آنے والی نسل کو آگ میں جھونکے کی سازش کی ہے۔ موجودہ بھارتی آرمی چیف کی بڑھکیں دراصل اسی قلق کی علامت ہیں کہ پاکستان کا وجود اس نہج تک خاکم بدہن ختم کیوں نہیں ہوا؟اس حوالے سے دیکھیں تو متعصب ہندو آج بھی بھارتی اور پاکستانی مسلمانوں کو بدیسی سمجھتا ہے، انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا اور ان کے وجود کو خدانخواستہ نیست و نابود کرنے پر تلا ہوا ہے۔
یہ متعصب ہندوؤں اور پنڈت جواہرلال نہرو کے پیروکاروں کا پرانا کام ہے، لکھنئو پیکٹ جب الٰہ آباد میں پنڈت موتی لال نہرو اور ان کے حواریوں نے تیار کرکے پیش کیا تو مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھا، اس پیکٹ میں متعصب ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو شاید شکاری کتے اپنے شکار کے ساتھ بھی روا نہیں رکھتے۔ اس موقع پر قائداعظم نے ہندو مسلم راستوں کو جدگانہ قرار دیتے ہوئے اپنی راہوں کو مکمل طور پر الگ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ بھارتی آرمی چیف پاکستان کو کھوکھلی دھمکیاں دیتے ہوئے شاید یہ بھول گیا ہے کہ بھارت کا اقتدار عملاً مقبوضہ کشمیر میں بھی نہیں، وادیء کشمیر کی آبادی سے زیادہ بھارتی فوج اگر وہاں شکست فاش سے دوچار ہورہی ہے تو پھر پورے ایٹمی پاکستان سے پنگا لینا اس کے بس میں کہاں ہوگا؟پاکستان کے خلاف کسی قسم کی بھی فوجی کارروائی خود بھارت کے وجود کو خطرے میں ڈال دے گی اور اگر بھارتی حکومت اپنی فوج کو آگ میں جھونکنا چاہے تو ایسا کرسکتی ہے۔