اسلام آباد (وقائع نگار + ایجنسیاں) سینٹ کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے موجودہ حکومت کے منی بجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے بدترین اوربلیک مارکیٹ بجٹ کا نام دے دیا ہے اپوزیشن نے کہاہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے روایتی بجٹ پیش کرکہ ایک اور یوٹرن لیا ہے ارکان نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ 100دن میں 100مذاق ہوں، بجٹ میں طوفانی ٹیکس ڈالے گئے ہیں ، اگر ہم میں سے کوئی ایسابجٹ لاتا تو وزیرخزانہ ہلکان اور ڈرم بجا رہے ہوتے ، نیا پاکستان کہاں ہے کسی کو نظر آرہا ہے تو بتا دے ،ہم نے توچشمے بھی تبدیل کر دیے ہیں حکومت نے ملک کی ترقی کے ضامن سی پیک کے چار منصوبوںاور گوادر کے 12منصوبوں پر بھی کٹ لگادیا ہے ، سبسڈی ختم کرنے سے مہنگائی کا جو طوفان کھڑا ہو گااس کا جواب کون دے گا، یہ خیالی پلائو پکا رہے ہیں، شک ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی طرف جانا چاہ رہی ہے، ان خیالات کا اظہار بدھ کو سینٹ میں ضمنی مالیاتی (ترمیمی) بل 2018پر بحث کر تے ہوئے سینیٹر شیری رحمان ، مشاہد حسین سید اور جاوید عباسی سمیت دیگر ارکان نے کیا ۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ مایوس کن بجٹ ہے ، ہماری حکومت نے نان فائلر کو استثنیٰ نہیں دیا تھا لیکن اس حکومت نے انہیں راتوں رات چھوٹ دے دی ہے، وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ منی بجٹ میں سی پیک منصوبوں پر کوئی کٹ نہیں لگایا جائے گا جبکہ سی پیک منصوبوں اور تعلیم پر بھی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا لیکن آج پتہ چلا کہ انہوں نے چارسی پیک کے منصوبوں پر کٹ لگایا ہے جبکہ گوادر کے 12منصوبوں پر بھی کٹ لگایا ہے، جاوید عباسی نے کہا کہ ایک نعرہ لگایا گیا تھا کہ پارلیمنٹ میں فیصلے کریں گے ، تحریک انصاف دن رات کہتی تھی کہ جن پر ٹیکس لگا ہوا ہے ان پر نہیں لگائیںگے ، جس ٹیم کے بارے میں بار بار لوگوں کو بتایا گیا وہ میدان میں اتری ہے ، ہم سوچ رہے تھے شاید ضمنی بجٹ میں اہم فیصلے کریں گے ، یہ ہمیشہ غریبوں کی بات کرتے تھے ، سب سے پہلے انہوں نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے غریبوں پر پہاڑ گرایا ہے ، اتنے بڑے اضافے کی گزشتہ تیس سالوں میں مثال نہیں ملتی ، گزشتہ پانچ سال میں ہماری حکومت کے دوران گیس کی قیمت میں ایک روپیہ اضافہ نہیں کیا گیا، ٹیکس کی وجہ سے مہنگائی ہوتی ہے ، یہ نئی حکومت کا دوسرا بڑا تحفہ ہے۔عمران خان نے کہا تھا کہ جب حکمران کشکول لیکر باہر جاتے ہیں تو قوم کے سر جھک جاتے ہیں، ہم کسی ملک کے سامنے مانگنے کیلئے نہیں جائیں گے ،کاش وزیراعظم ان الفاظ پر قائم رہیں ، شک ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی طرف جانا چاہ رہی ہے ، یہ سارے وہ کام کر رہے ہیں جو آئی ایم ایف کی شرائط ہیں، جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ گوادر بنانے جا رہے ہیں پہلے گوادر میں پانی تو دے دیں ، واشک میں بجلی کا نام ونشان نہیں ہے، آواران میں زلزلے کے بعد بین الاقوامی ڈونرز کو آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کس کی اجازت سے آئل ٹرمینل سعودی عرب کو دیے گئے ، ہم آج بھی اکیسویں صدی میں دیئے جلا رہے ہیں ، سرجیکل آلات پر ٹیکس لگادیا گیا ہے، کچھی کینال کو مکمل کرنے کا اعلان کیا جانا چاہیے ، ہمارے علاقے میں تین گھنٹے بجلی آتی ہے پھر کہا جاتا ہے کہ 11ہزار میگاواٹ بجلی ہم سسٹم میں شامل کر چکے ہیں، کوئٹہ میں 14گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ یہ ایسی پارٹی کا بجٹ ہے جس نے ہر جگہ بار بار کہا کہ ہم انقلاب اورتبدیلی کی پارٹی ہیں،یہ غیر سنجیدہ بجٹ ہے ، یہ روایتی بجٹ بھی نہیں ہے۔ حکومت کی تقریر اب بھی اپوزیشن والی ہوتی ہے۔ سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے کہا کہ آج ڈالر 118روپے تک پہنچ گیا ہے ، سینیٹر غوث خان نیازی نے کہا کہ یہ قوم کے سامنے جھوٹ بولتے رہے کہ ہم کفایت شعاری کریں گے ، انہوں نے فرٹیلائزر کے ریٹ بڑھائے ، گیس کی قیمتوںمیں اضافہ کیا گیا ، یہ چند دنوں میں بجلی کی قیمتیں بھی بڑھائیں گے ، یہ حکومت سیاسی پوائنٹ سکورننگ کر رہی ہے اور خیالی پلائو پکا رہے ہیں۔ سینٹ اجلاس میں حکومت کو ایک بار پھر وزراء کی عدم موجودگی پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن نے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کی تقریر سننے سے انکار کر دیا۔ حماد اظہر بجٹ پر بحث کے دوران بولنے کے لئے کھڑے ہوئے تو اپوزیشن ارکان نے شور مچانا شروع کر نیا۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے حماد اظہر کو بیٹھنے کا کہہ دیا۔ پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد خان نے سینٹ میں بلوچستان کو مکمل حقوق فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بلوچستان کی محرومیاں دور کرکے ملازمتوں کے کوٹہ سمیت دیگر محرومیوں کا ازالہ کرے گی۔ سینٹ میں سینیٹر محمد اکرم کی جانب سے توجہ دلائو نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ صوبہ بلوچستان کو طے شدہ کوٹہ کے مطابق ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔