’’تیری کیا اوقات ہے بندے جس پہ تُو اتراتا ہے‘‘

ابھی دو روز قبل ہی لرزتی، ہچکولے کھاتی زمین نے ہمارے اوسان خطا کئے اور میرپور آزاد کشمیر میں قیامت صغریٰ بپا کی۔ اس زلزلے کی شدت رچر سکیل پر چھ اشاریہ سے بھی کم تھی مگر اس نے پنجاب ، خیبر پی کے اور سندھ سمیت عملاً پورے ملک کو لرزا دیا اور میرپور کا ایک گائوں مکمل تباہ ہو گیا۔ اس زلزلے میں اب تک چالیس انسانوں کی شہادتیں ریکارڈ ہو چکی ہیں اور مالی نقصان کی کوئی انتہاء نہیں ، جو گھر مکمل تباہ ہوئے وہ تو اپنی جگہ مگر جن مکانوں میں گہری دراڑیں پڑی ہیں وہ بھی انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے۔ لرزتی زمین نے سڑکوں کو گڑھوں میں تبدیل کر دیا۔ یہ سب کچھ محض چند ساعتوں میں ہوا۔ ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں اتنی تباہی سرکش انسانوں کی عبرت کے لیے کافی ہونی چاہئے مگر ہم ٹھٹھہ مذاق سے باز نہیں آئے۔ بے شک یہ سارا نظام کائنات رب کائنات کی رضا پر چل رہا ہے۔ خالقِ کائنات کی منشاء کے آگے چاند کے بعد مریخ تک پہنچنے کی سوچ رکھنے والے ہم سرکش انسانوں کی بھلا کیا اوقات ہے۔ قدرت کے مظاہر ہمیں طوفانوں، سیلابوں، زلزلوں، آسمانوں پر کڑکتی بجلیوں اور دوسری قدرتی آفات کی شکل میں ہماری حیثیت و حقیقت کا احساس دلاتے ہیں مگر ہماری سرکشی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ زمین پر خدا بنے بیٹھے حقیر انسانوں کی بھلا قدرت کے مظاہر میں کیا اوقات ہے مگر ہماری ’’میں‘‘ پدرم سلطان بود سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ دو روز قبل قدرت نے جھنجوڑا۔ چند لمحے کو موت یاد آئی اور پھر اپنی من مانیوں میں مگن ہو گئے، سو قدرت نے آج پھر جھنجوڑ دیا۔
ہلکے پھلکے آفٹر شاکس کا سلسلہ تو گزشتہ دو روز سے جاری تھا مگر آج کے نئے جھٹکے نے پھر دل و دماغ کو ہلا کر اور سوچوں کو مائوف کر کے رکھ دیا۔ آج کے زلزلے کا مرکز بھی جہلم کے قریب تھا جس کی گہرائی دس کلومیٹر سے زیادہ اور رچر سکیل پر شدت بھی عشاریہ پانچ کے قریب تھی۔ اس لیے دو روز قبل جیسی تباہی سے محفوظ رہے مگر آج سے 14 سال قبل کے آٹھ اکتوبر 2005ء کے زلزلے کا آج بھی تصور کرتے ہوئے کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ اس زلزلے میں بھی ہولناک تباہی شمالی علاقہ جات ، کشمیر اور خیبر پی کے میں ہوئی جہاں پلک جھپکتے میں ایک لاکھ کے قریب انسان اور ان کی املاک مٹی کا ڈھیر بن گئیں۔ ایک ہوٹل سمیت کئی عمارتیں زمین کے اندر غرق ہو گئیں۔ اس زلزلے نے جن انسانی المیوں کو جنم دیا ان کی ٹیسیں آج بھی رنج و غم میں ڈبو جاتی ہیں۔ اس زلزلے کی شدت سات عشاریہ چھ تھی جس نے زمین کو اس کے اوپر موجود ہر چیز سمیت ادھیڑ کر رکھ دیا۔ مگر اسکے گیارہ سال بعد -26 اکتوبر 2016 ء کو قیامت کی طرح برپا ہونے والے آٹھ عشاریہ ایک شدت کے زلزلے نے عمارتوں اور انسانوں کو جھنجوڑنے، نچوڑنے کے باوجود بڑی تباہی سے بچا لیا۔ اس کے بارے میں ماہرین ارضیات کا کہنا تھا کہ اس زلزلہ کی گہرائی سطح زمین سے بہت نیچے تھی اس لیے اس کی شدت زیادہ ہونے کے باوجود نقصانات کم ہوئے۔ مگر جناب یہ نظام قدرت ہے جس میں کسی انسان کی کوئی رسائی، کوئی چارہ، کوئی یار انہیں۔ قدرت چاہے تو پلک جھپکتے میں سب کچھ مٹی کے ڈھیر میں تبدیلی کر دے اور چاہے تو قیامت کے مناظر دکھا کر بھی سب کچھ بچا لے۔
آپ تصور کیجئے کہ ہماری فضا ئوں میں ہماری زندگیوں کے لیے سانس کا اہتمام کرنے والی ہوا محض چند ساعتوں کے لیے بالکل بند ہو جائے تو کروفر والے انسان کے سارے مادی وسائل کیا اس کی زندگی کی ضمانت فراہم کر پائیں گے۔ سورج چند لمحوں کے لیے شعلہ بار ہو جائے تو ہم سرکش انسان اپنے سمیت ہرچیز کو بھسم ہونے سے بھلا بچا پائیں گے۔ سمندروں کے پانی کی سطح اپنے معمول سے تھوڑی سی بلند ہو جائے تو کیا ہم خود کو اور اپنے مادی وسائل کو بپھرے پانی کی نذر ہونے سے بچانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ بس ایک سانس کی مرہون منت ہی تو ہے ہماری انسانی اوقات جس کا آج کی موسمیاتی تبدیلیاں ہمیں پل پل احساس دلا رہی ہیں۔ مگر ہم ایک جھٹکے پر اللہ توبہ کرکے پھردنیا و مافیہا میں مگن ہو جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ…؎
لائی حیات آئے‘ قضا لے چلی ، چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہماری انسانی جبلت ہمیں دنیاوی آلائشوں میں ہی لبیڑے رکھتی ہے۔ ہمیں آخرت کی فکر ہوتی ہے نہ عاقبت سنوارنے کی مگر عملاً ہماری اوقات یہ ہے کہ زلزلے کا معمولی سا جھٹکا بھی ہمارے پورے جسم پر کپکپی طاری کر دیتا ہے…؎
اپنے پائوں پہ آتا ہے نہ اپنے پائوں پہ جاتا ہے
تیری کیا اوقات ہے بندے جس پہ تو اِتراتا ہے
جس طرح ہم نے -24 ستمبر اور آج -26 ستمبر کے زلزلے کے لمحات نوائے وقت کے آفس میں ہچکولے کھاتی بلڈنگ کے ساتھ گزارے اسی طرح ہم نے 26 اکتوبر 2016ء کے زلزلے کا تمام دورانیہ ذہن و دل پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات سمیت نوائے وقت بلڈنگ کے چوتھے فلور پر ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری صاحب کے آفس میں بیٹھ کر گزارا تھا۔ اس وقت پوری عمارت اور ہم سب کی جو کیفیت تھی وہ زندگی کی آخری گھڑی آنے کی ہی عکاسی کر رہی تھی۔ بتدریج بڑھنے والے زلزلے کے جھٹکوں سے بلڈنگ کے عملی طور پر جھولنے کی کیفیت اور اس کے درودیوار میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے سورۂ الزلزال میں قیامت کے مناظر پر مبنی زمین کی بیان کی گئی حالت بنی تو دل و نگاہ ساکت ہو کر رہ گئے۔ الحفیظ والا مان۔ جھٹکے تھے کہ بڑھتے ہی چلے گئے۔ ہمارے سامنے پڑے چائے کے کپ بھی طوفان اٹھاتے نظر آئے۔ کمرے کے شیلفوں میں رکھی کتابیں بھی باہم ٹکرانے سے خوفناک آوازیں پیدا کرنے لگیں۔ درودیوار سے پراسرار آوازیں برآمد ہوتی سنائی دیں۔ پھر یوں محسوس ہوا جیسے پوری بلڈنگ کو کوئی جھنجھوڑ کر اور دھکیل کر گرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہماری زبانوں پر بے ساختہ ذکر الٰہی کا ورد جاری ہو گیا اور پھر ایک منٹ کے دورانیے کے بعد زلزلے کے آخری جھٹکے نے عملاً پوری بلڈنگ کے زمین بوس ہونے کا منظر بنا دیا۔ ہم نے اس وقت خوف کے جس لمحے کا سامنا کیا‘ اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ الفاظ کی زبان نہیں دی جا سکتی۔ اگر اتنا نزدیک آنے والی موت بھی ہمیں آغوش میں لئے بغیر نکل گئی اور جھولتے جھولتے زمین بوسی کے قریب پہنچی عمارت میں بھی یکا یک ٹھہرائو آگیا تو بھائی صاحب‘ ہم قدرت کی حقانیت تسلیم کرنے میں کیوں حجاب محسوس کرتے ہیں۔ یہی تو معجزہ خداوندی ہے جس کے محض ’’کن‘‘ کہنے سے پوری کائنات تخلیق ہو جاتی ہے‘ جسے ارض و سماء کی ہر چیز پر مکمل قدرت حاصل ہے‘ جس کے حکم اور اشارے کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ وہی خدا ہے۔ کیا رب وحدہ لاشریک نے اپنی کتاب ہدایت میں تخلیق کائنات اور نظام کائنات کو ‘مقصد حیات و ممات کو‘ نیکی اور بدی کے تصور کو اور پھر نظام قدرت کو کائنات سے سرکشی اختیار کرنے والی اپنی مخلوق کے ماضی کے انجام اور ممکنہ انجام کو کھول کھول کر بیان نہیںکر دیا۔ کیا ہم سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر 2 میں بیان کی گئی رب کائنات کی اس حقیقت کے منکر ہو سکتے ہیں کہ ’’وہی ہے رب کہ جو اس روئے زمین پر ہے اور جو آسمان میں ہے۔ سب اسی کا ہے اور کافروں کیلئے سخت عذاب کے باعث بڑی تباہی ہے۔‘‘
بلاشبہ رب کائنات کی اس حقیقت کے منکرین ہی کافر ہیں جو رب کائنات کی ’’کن فیکون‘‘ والی اٹل حقیقت سے سرکشی اختیار کرتے ہیں۔ اگر رب کائنات نے مقصد حیات بھی بتا دیا ہے‘ زندگی گزارنے کا چلن بھی متعین کر دیا ہے اور ہر موسم جس کی قدرت میں ہے اور جس نے قیامت کی نشانیاں بھی کھول کھول کر بیان کر دی ہیں۔ اس کی حقانیت اور قدرت کے مظاہر سے دانستاً صرف نظر کرنا موت کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے ہی مترادف ہے۔ قدرت کی منشاء ہو تو اس کے محض ’’کن‘‘ سے اس ساری دھرتی کے جن و انس‘ درختوں‘ پہاڑوں‘ دریائوں‘ سمندروں اور روح و بُت کا کہیں کوئی وجود ہی نہ رہے۔ ہم قدرت کے ایسے مظاہر دیکھ کر بھی اکڑفوں اور برتری والے ذہنی خناس میں مبتلا ہیں تو یہ ضرور سوچ رکھیں کہ
جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا۔
دو گز کفن کا کپڑا تیرا لباس ہوگا
بس عاجزی سے یہ دعا کرتے رہئے کہ دو گز کفن کا کپڑا ضرور نصیب ہو جائے۔ قدرت کے مظاہر تو ہمیں پل پل جھنجوڑ رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن