کورونا وائرس پوری دنیا میں ایک دہشت بن کر چھایا ہُوا ہے۔ اسے 21ویں صدی کا نا قابلِ فراموش اور بھیانک واقعہ قرار دیا جاتا رہے گا۔ حوصلہ افزاء بات ہے کہ وطن عزیز سمیت بہت سے ملکوں میں ا س موذی وائرس کے اثرات بہت کم رہ گئے ہیں کہ جن ملکوں میں تین بنیادی احتیاط کے اصولوں پر سختی سے عمل کیا گیا، وہاں صورت حال بہتر ہوئی اور کوروناکے اثرات پر قابو پایا جا رہا ہے۔ میڈیکل سائنس کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ احتیاط کا دامن تھامے رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ موذی مرض جاتے جاتے بھی حملہ آور ہو سکتا ہے اور اس کا دوسری بار حملہ آور ہونا زیادہ خطرناک اور مہلک ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس خطرناک اور موذی وائر س کو کئی ملکوں اور علاقوں میں پوری سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔ لوگوں نے ماسک کے استعمال ، ایکدوسرے سے مناسب فاصلہ اور بار بار ہاتھ وغیرہ دھونے کی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل نہیں کیا ۔ جن جگہوں پر سختی سے عمل کیا گیا تو اس موذی وائرس کے اثرات ختم ہونے سے پہلے ہی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چھوڑ دیا یہی وجہ ہے کہ جن ملکوں میں یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو رہا ہے ، وہاں صورت حال خراب چلی آ رہی ہے ۔ حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں 9لاکھ 90ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں ۔ متاثرہ ملکوں میں امریکہ سر فہرست ہے اور بھارت کا دوسرا نمبر ہے ۔ برطانیہ میں بھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ وہاں تو چھ ماہ کے لئے مزید پابندیاں لگا دی گئی ہیں ۔ شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھرو ں میں رہیں اور لازمی سروسز کے ملازمین وہیں سے آن لائن کام کریں۔ وزیر اعظم برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ریسٹورنٹس، بار رومز اور دیگر ایسے مقامات جہاں لوگوں کی موجودگی زیادہ ہوتی ہے ، انہیں جلد بند کر دیا جائیگا۔
بلا شبہ اس موذی وائرس سے بچائو کیلئے احتیاطی تدابیر سے سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ مطلوبہ نتائج کے حصول میں بہت دشواری ہوتی ہے ۔ ایک اچھی مثال متحدہ عرب امارات سے سامنے آئی ہے ۔ دبئی میں پولیس نے ایک خاتون کو اپنے گھر میں موسیقی کی محفل سجانے پر دو ہزار سات سو سے زائد ڈالر جرمانہ کیا ہے ۔ اس خاتون نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اجتماعات پر پابندی کے ہنگامی ضابطے کی خلاف ورزی کی تھی اسی طرح دوسرے ملکوں میں بھی سختی سے کام لینے کی پالیسی کو اپنایا جا رہا ہے ۔ مقام شکر ہے کہ وطن عزیز میں بھی یہی پالیسی احتیاط کر کے بہتر نتائج حاصل کئے جا رہے ہیں۔ تین بنیادی اور احتیاطی تدابیر کو لازم قرار دیا گیا ہے ۔ یونیورسٹی ،کالج اور ہائی سکول کی سطح پر تعلیمی سلسلے کو بحال کرنے کے نتائج حوصلہ افزاء ہیں ، چنانچہ پنجاب اور کے پی کے میں چھٹی سے آٹھویں جماعت تک بھی سکول کھولنے کی اجازت دی گئی ہے اور توقع ظاہر کی جار ہی ہے کہ اگلے ماہ پرائمری سکول بھی کھول دئیے جائیں گے اور تعلیمی سلسلہ بھرپور طریقے سے بحال ہو جائیگا۔ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے میں عام لوگوں کا تعاون بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ حکومتی سطح پر اِس پالیسی پر سختی سے عمل کروایا جا رہا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں سخت چیکنگ بھی ہو رہی ہے ۔ چند سکولوں میں کورونا وائرس کے اکیاسی متاثرہ سٹوڈنٹس کا علم ہونے پر وہ سکول فوری طور پر بند کر دئیے گئے تا کہ کورونا کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
ویسے تو دنیا بھر میں اس موذی وائرس سے بچائو کیلئے ویکسین کی تیاری کا کام جاری ہے ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے لیکر نجی شعبے میں ریسرچ اور تجربات ہو رہے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ بہتر ویکسین کی تیاری میں کامیابی کی اطلاعات ملنے کے بعد ایسی موثر اور کامیاب ویکسین کے عملی تجربات شروع ہو گئے ہیں ۔ جن کے حوصلہ افزاء نتائج سے اس وائرس کو روکنے کی کوششیں کامیاب ہوں گی ۔ پاکستان میں حکومتی مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان نے خوشخبری سنائی ہے کہ ملک میں ہونے والی ریسرچ اور تجربات کے کلنیکل ٹرائل کے تیسرے مرحلے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہ کہاجا سکتا ہے کہ بہت جلد ویکسین عام لوگوں کو دستیاب ہوگی اور کورونا پر قابو پانے میں مدد یقینی ہو گی ۔ امریکہ ، چین ، جاپان اور دیگر ملکوں میں ایسی ویکسین تیار کر لی گئی ہے ، جو کورونا کی روک تھام میں معاون ثابت ہو گی ۔ یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ وطن عزیز کے میڈیکل سائنس کے ماہرین بھی دنیا بھر میں پیچھے نہیں ہیں۔ ان کی شبانہ روز کاوشوں سے بہتر اور مئوثر ویکسین تیا ر کر لی گئی ہے اس کیلئے اس شعبے میں سر گرم ساری ٹیمیں قابل مبارکباد ہیں۔