گزشتہ سے پیوستہ
حقیقت ہے کہ آزادی رائے کیلئے انکی جزباتیت و والہانہ پن ہم یہاں نہیں سمجھ سکتے . رائے کی آزادی کیلیے اْن کے اس قدر جزباتی پن کی سمجھ راقم کو بعد میں فلسفہ پڑھتے ہوئے آئی . یہ یورپ کی اقدار و شعار کا ایسا حصہ بن چکا ہے کہ جس پر وہ قطعاً سمجھوتہ نہیں کرتے . انہوں نے قرونِ وسطی یا اپنے تاریک دور میں صدیوں تک چرچ کی ناروا پابندیوں و مظالم کو برداشت کیا ہے . چرچ کے مظالم کا یہ عالم تھا کہ دنیا بھر میں آجتک کے زیرِ استعمال ایزا رسانی کے تمام آلات چرچ کے پروردہ مقدس افراد نے اْس دور میں ایجاد کئے تھے . نئی سائنسی تحقیقات پر بھی عظیم سائنسدانوں کو سخت ترین سزائیں دی جاتیں . مخالفین کو آگ کی ہلکی آنچ پہ جلایا جاتا تاکہ اذیت کا دورانیہ طویل اور تکلیف کی شدت شدید ہو . گلیلو اور کوپر نیکوس کو بھی چرچ کیطرف سے یوں پریشان کیا گیا تھا . چودھویں صدی کے فرانسیسی سائنسدان ، فلاسفر اور ماہر دینیات ڈیکارٹ جسے آج یورپ کے عہد جدید کا بانی سمجھا جاتا ہے ، کیطرف سے کسی نئی مذہبی تشریح پر آگ بگولہ ہو کر چرچ کے اہلکار اسکے پیچھے پڑ گئے تو اسے اپنی جان بچا کر ھالینڈ میں پناہ لینا پڑی تھی . فرانس جیسی ایک بڑی سیاسی و فوجی قوت ھالینڈ جیسے قدرے چھوٹے ملک سے نہ اپنا بندہ لے سکی نہ ہی اسے وہاں مروا سکی تھی . آزادی رائے کیلئے سیاسی پناہ کا یہ پرانا ترین قضیہ ہے . آہستہ آہستہ چرچ کے مظالم کیخلاف لوگ ڈٹتے گئے ، چرچ کے اختیارات محدود کرتے گئے اور عوام الناس آزادی سے سرشار ہوتے گئے . آزادی کا یہ حصول آسان ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ راہ بہت کٹھن ، طویل اور خون آلود تھی . بعدازاں میٹرو کی کھدائیوں کے دوران چرچوں کے قرب و جوار اور تہہ خانوں میں مذہبی بھیڑیوں کے ہاتھوں تشدد زدہ لاشوں کے سینکڑوں ڈھانچے ان قربانیوں کی گواہی دیتے ہیں .
چرچ کے ان مظالم کیخلاف یہ آزادی چونکہ بڑی خونی جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی تھی . اس لئے اہل یورپ اس کی حفاظت کے پیش نظر کافی حساس ہیں . اب حال یہ ہے کہ کوئی مْلحد جنابِ عیسیٰ کی شان میں گستاخی کر دے یا ان پر مضحکہ خیز فلم بن جائے ، کوئی عیسائی احتجاج کرتا نہیں پایا جاتا . بیس سال قبل جب مسیح کیخلاف یورپ میں ایک فلم بنی تو اسکے خلاف پاکستان میں مظاہروں کی خبریں جب یورپ تک پہنچیں تو لوگ انتہائی حیرانی کا اظہار کرتے پائے گئے کہ ناموس عیسیٰ کیلیے مسلمان بھلا عیسائیوں سے بھی زیادہ جزباتی بھی ہو سکتے ہیں .
مگر تیس سال قبل کے مزکورہ ایرانی اقدام کو اسوقت اس تناظر میں دیکھا گیا جیسے بیرون ملک کی ایک مذہبی عفریت انکے حقوق سلب کرنا چاہتی ہو . سیکولر عوام مذہبی قوتوں سے لرزہ بہ اندام ہوتی ہیں کہ کہیں وہی ظلم و بربریت کا دور نہ لے آئیں جسے وہ صدیوں تک جھیلتے آئے ہیں اور جس سے نجات انہوں نے بمشکل پائی تھی . مگر آزادی رائے اور ایران کے اعلان کے پس منظر میں برسلز کا اسلامی سکول جیسا ایک جائز تعلیمی معاملہ بھی بظاہر کھٹائی میں پڑ چکا تھا .یلج حکومت کیجانب سے باقاعدہ انکار اور مقامی سیاست میں اسلام مخالف فضا دیکھتے ہوئے جب مسلمان اپنے سکول کے امکانات مسدود ہوتے دیکھ رہے تھے تو امام مسجد کو ایک دور کی سوجھی . سعودیہ کے تعمیر شدہ اسلامی مرکز کے ڈائریکٹر و امام کا بیلجئم میں رتبہ ایک سفیر کے برابر ہوتا ہے . اس نے اچانک ایک ایسا جراتمندانہ اعلان کیا کہ اسلامی تعلیم سے روکنے کی پھر بیلج حکومت سے بن نہیں پڑی . اعلان میں اس نے کہا تھا کہ سکول کی ایک علیحدہ اور بڑی عمارت کا مجوزہ منصوبہ چونکہ رد کر دیا گیا ہے ، اس لئے اب سکول تو نہیں بنے گا ، مگر اسلامی طرزِ تعلیم کی کلاسز ضرور ہونگی . اس نے بتایا کہ اس مقصد کیلیے مسجد سے ملحقہ اسلامی سینٹر کا ایک حصہ مختص کر دیا گیا ہے اور جلد ہی وہیں کلاسز شروع ہوں گی . چونکہ پہلے سے قائم اسلامی سنٹر یا مسجد کو تو اب حکومت بند کر نہیں سکتی تھی ، زیرک امام کے فیصلے سے بے بسی سے بس یونہی ہاتھ مسلتی رہی . اگلے دن کی ڈچ کلاس میں اس پیشرفت کو تخت مشق بنایا گیا تو راقم نے دیکھا کہ بیچارے بیلج نوجوان طلباء اور خاتون پروفیسر جیسے روتے بھی تھے اور ہنستے بھی کہ امام کو اچانک یہ کیا تدبیر اور کیسے سوجھی . کسی کو بھی ایسے ردعمل یا ایسی جسارت کی قطعاً امید نہ تھی . حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ایک سیکولر ملک سے ایک دوست ملک کو بھی قطعاً یہ امید نہ تھی کہ وہ سکول کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی یوں کوشش کریگا . برادر اسلامی ملک ترکی بھی چونکہ سیکولر ملک ہے ، اس پر بھی ایک وقت یورپی یونین کا ممبر ملک بننے کی دْھن سوار تھی . یہ ظالم فوجی حکمرانوں کا دور تھا . جو بات بات پر سیکیولرازم کے تحفظ کے نام پر وزیراعظم سمیت کسی کو بھی پھانسی لگانے سے نہیں چوکتے تھے . شاہ سے سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق یہ جرنیل یورپیوں سے زیادہ سیکولرازم کے محافظ بن بیٹھے تھے . اسوقت یورپ میں مقیم ترک اپنے وطن سے زیادہ مذہبی آزادی سے مستفید ہوتے تھے . جہاں انکے مرد داڑھی رکھنے میں جبکہ خواتین سکارف کے استعمال میں آزاد تھیں . مگر اس کے یکسر برعکس سیکولر ترکی کے اندر معاملہ یہ تھا کہ گلیوں و شاہراؤں میں نام نہاد سیکولر فضا کو قائم رکھنے کیلیے عورتوں کے سکارف نوچ لئے جاتے تو مردوں کی داڑھیاں زبردستی کاٹ دی جاتیں . جعلی سیکولر ملک میں آزادی رائے کا یہ عالم تھا کہ حالیہ بحالی پر مشہور ہونے اور موضوعِ بحث بننے والی "آیا صوفیہ مسجد" کی بحالی کے خواب پر مبنی ایک جزباتی نظم لکھنے والے ایک معروف شاعر کو بھی تْرک سیکولرازم کے علمبردار جلاد جرنیلوں نے پھانسی پر چڑھا دیا تھا . یاد رہے ، مسجد کی بحالی کے موقع پر اردگان نے وہ نظم خود بھی پڑھی .
یورپی یونین کا ممبر ملک بننے کی ترکی کی دیرینہ خواہش کو یورپی ممالک صرف اسلامی تشخص کی بنیاد پر قابل اعتناء نہیں سمجھتے تھے ، اسلئے بار بار التوا میں ڈالتے رہے . آخرکار مزہب کی بنیاد پر ترکی کو ممبر اسٹیٹ نہ مان کر یوں وہ خود سیکولرازم سے روگردانی اور ترکی کی برادرانہ پیشکش کو مسترد کرنے کے مرتکب ہوئے . شمولیت میں مکمل ناکامی کے بعد ترکوں میں بھی ایک قدرتی ردعمل پیدا ہوا ہے جو انہیں اسلام دشمن و نام نہاد سیکولر فوجی ڈکٹیٹروں سے حقیقی جمہوریت اور اسلام کے قریب لے گیا اور وہ اسلام کی کی نشانہ الثانیہ کے خواب آنکھوں میں سجانے لگے ہیں . آیا صوفیہ مسجد کی بحالی کو وہ اس خواب کی تکمیل کیجانب ایک قدم سے تعبیر کر رہے ہیں . یورپ کا یہ حال ہے کہ کسی صورت ترکی سے مطمئن اور خوش نہیں . آج اگر ترکی یورپ کا ممبر ہوتا تو آیا صوفیہ شاید نہ یوں بحال ہوتی اور نہ ہی آج دنیا بھر میں یوں موضوعِ سخن ہوتی .
ترکی کو مذہبی بنیاد پر رد کرنے اور اسلامی سکول کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے علاوہ مساجد کے میناروں اور خواتین کے سکارف پر حالیہ پابندیوں سے یورپی سیکولرازم کا دوہرا معیار اور کھوکھلا پن عیاں ہوا ہے . یوں اسلامی شعائر کیخلاف عدم برداشت میں اضافے سے خود سیکولر اقدار بیحد کمزور ہوئی ہیں . سچ ہے کہ اسلام کی تہذہبی یلغار کے بیجا خوف کے تحت یورپ نے ان سب معاملات میں مسلمانوں کیساتھ نا انصافی کی ہے اور حقیقی و بنیادی سیکولر اقدار پر بھی سمجھوتہ کیا ہے . یوں صدیوں پر محیط "مسیحی یورپ اور اسلامی دنیا" کی تاریخی چپقلش کے بعد یورپ نے "اسلام بالمقابلہ سیکولر یورپ" ایک نئی مخاصمت یا سرد جنگ کی بنیاد رکھی ہے . جبکہ آیا صوفیہ مسجد کی بحالی اردگان کا جوابی اقدام ہے .۔