بلوچستان میں پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہونے کے نتیجے میں چھ اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ہیلی کاپٹر فلائنگ مشن کے دوران گر کر تباہ ہوا۔ شہداءمیں پائلٹ میجر محمد منیب افضل اور پائلٹ میجر خرم شہزاد شامل ہیں، شہید ہونے والے دیگر اہلکاروں میں نائیک جلیل ، صوبیدار عبدالواحد، سپاہی محمد عمران اور سپاہی شعیب شامل ہیں۔ یہ وہ جوان ہیں جو اس ملک اور قوم کی حفاظت کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیے جاتے ہیں۔ زندگی سے زیادہ کچھ قیمتی نہیں لیکن افواجِ پاکستان کے افسران اور جوانوں کے لیے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے جان قربان کرنے سے زیادہ بڑا اعزاز کوئی نہیں ہے۔ شہداءکی ایک طویل فہرست ہے جو فوج کا حصہ بننے والے ہر جوان کو اس عظیم مقصد کے لیے جان قربان کرنے کا سبق دیتی ہے۔ اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے اور افواجِ پاکستان کی طاقت و قوت میں اضافہ فرمائے۔ جنہیں فوج پر اعتراض رہتا ہے انہیں شہادت کے وقت بھی کچھ بولنا اور کچھ دہرانا ضرور چاہیے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف سمیت مختلف سربراہان مملکت کو استقبالیے پر مدعو کیا گیا۔ امریکی صدر نے پاکستان میں سیلاب کے باعث ہونے والے جانی و مالی نقصان پر افسوس اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی مدد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا تھا۔ موجودہ حالات میں اس ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، کمزور معیشت پر سیلاب سے آنے والی تباہی کا بوجھ پاکستان کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو دنیا کی مدد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ "وزیراعظم میاں شہباز شریف اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات آئس بریکنگ ہے۔ شکر گذار ہیں کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے دوسرے ملکوں کے ساتھ پاکستان کو بھی اپنی دعوت میں بلایا، امریکا کے ساتھ مستقبل میں تعلقات مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔"
پاکستان اور امریکہ کے دیرینہ اور مضبوط تعلقات ہر دور میں موضوع بحث رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں اتار چڑھاو¿ آتا رہتا ہے۔ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات پر سیاست دان اپنی انتخابی مہم چلاتے ہیں، امریکہ مخالف بیانیہ قائم کرتے ہوئے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں۔ لوگ امریکہ کی مخالفت میں ووٹ دیتے ہیں۔ سیاست دان امریکہ کی مخالفت صرف ووٹ لینے کے لیے کرتے ہیں اقتدار ملنے کے بعد ان کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح امریکہ سے مضبوط تعلقات قائم کیے جائیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں بھی یہ کوششیں ہوتی رہیں، امریکہ میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد بھی پی ٹی آئی اس کوشش میں لگی رہی یہ الگ بات ہے کہ حکومت سے نکلنے کے بعد ان کا موقف بدلا یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وہ دوبارہ حکومت بناتے ہیں امریکہ کے ساتھ بہتر اور مضبوط تعلقات ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوں گے۔ پاکستان تحریک انصاف نے امریکہ بہادر سے بہتر تعلقات کے لیے بعض اداروں یا شخصیات کی خدمات بھی حاصل کیں جو کہ ان کے بیانیے کی مکمل طور پر نفی ہے۔ دراصل یہی حقیقت ہے کہ ووٹرز کے جوش و جذبے کو بڑھانے کے لیے ایسے کام کیے جاتے ہیں لیکن اس کا حقیقت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
کسی بھی ملک کو اپنی آزادی اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ مشکل وقت میں کون کام آتا ہے کس ملک سے اچھے تعلقات کی وجہ سے دنیا کے ساتھ رابطے بہتر اور کام آسان ہوتے ہیں۔ سیلاب سے آنے والی تباہی کو دیکھ لیں کس نے کتنا ساتھ دیا اور کون کہاں کھڑا تھا اس حوالے سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کہاں سے پاکستان کی مدد کے لیے آوازیں بلند ہوئیں اور کون دنیا کو پاکستان کی مدد کے لیے ترغیب دیتا رہا۔ حالانکہ گلیشیر پگھلنے میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہی برداشت کرنا پڑا ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو عالمی طاقتوں کے ساتھ بہتر اور قریبی تعلقات کی ضرورت ماضی سے زیادہ ہے۔ ہمیں اپنی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بناتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ ماضی کے واقعات سے یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ کسی کی جنگ میں شریک ہونے کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے۔ سیاست دانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عوام کو انتخابی نعروں اور غیر حقیقی بیانات میں الجھانے کے بجائے درست معلومات پہنچائیں۔ صرف ووٹ لینے کے لیے جذبات کو بھڑکانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اگر یہ ملاقات آئس بریکنگ ثابت ہوتی ہے تو پاکستان کے مسائل میں کمی آنی چاہیے۔ روس اور یوکرائن جنگ کی وجہ سے بھی دنیا مسائل کا شکار ہے پھر سیلاب نے کمزور معیشت کو اور نیچے گرا دیا ہے اس لیے جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ برف یکطرفہ پگھلنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا دوطرفہ آئس بریکنگ ہی معاملات کو بہتری کی جانب لے جا سکتے ہیں۔
اسحاق ڈار ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لیے وطن واپس پہنچے ہیں۔ اس وقت ہمیں جن حالات کا سامنا ہے اس میں کسی بھی طرف سے اگر کوئی بہتری نظر آتی ہے اور ملک و قوم کا فائدہ ہے تو اسطرف ضرور جانا چاہیے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو وقت ملا لیکن بدقسمتی سے ان کے وزراءپرفارم کرنے میں ناکام رہے۔ اگر وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تو یقیناً اسحاق ڈار کا نہ علاج ختم ہوتا نہ ان کی پرانے دفتر واپسی ہوتی بہر حال اب وہ آ رہے ہیں تو دعا ہے کہ اس ملک کے لیے کچھ اچھا کریں۔اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ "گرتی ہوئی معیشت اور اس کی سمت درست کرنے کی کوشش کریں گے۔ نواز شریف کی قیادت میں میں ہم دنیا کی اٹھارویں معیشت بننے جا رہے تھے، شرح سود کم ترین اور گروتھ ریٹ بھی بلندی پر تھا۔ پاکستانی روپیہ مستحکم تھا، زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر تھے۔" ڈار صاحب کی واپسی سے اگر ڈالر کی نچلی سطح پر واپسی ہوتی ہے روپیہ اوپر جاتا ہے تو اس سے بہتر کیا ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنا بہتر متبادل بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ منظم سیاسی جماعتیں متبادل قیادت تیار کرتی ہیں۔ مسلم لیگ نون کو دوبارہ موقع ملا ہے تو بہتر مستقبل کے لیے اہل، محب وطن، باصلاحیت اور ایماندار متبادل قیادت بھی تیار کریں۔