کراچی (نیوز رپورٹر)معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ کراچی کے پانی کے لئے آنے والی لائن کو بحریہ ٹاﺅن کو منتقل کردیاگیااور اب ملیر ایکسپریس وے کو بحریہ ٹاﺅن کا راستہ آسان کرنے
کے لئے بنایاجارہاہے۔اگر اس طرح چند مخصوص مفادات کے لئے ڈیولپمنٹ ہوگی توپھر ملک تو نہیں چل سکتااور اس طرح کی آفات تو آتی رہیں گی جس کا منہ بولتا ثبوت حالیہ سیلاب ہے۔ہماراالمیہ یہ ہے کہ ملک چلانے کے لئے دیگر ممالک سے غیر ملکی اداروں کے نمائندے امپورٹ کئے گئے اور بالخصوص سن 2000 ءکے بعدجس میں آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور ایشین بینک سرفہرست ہے۔1993 ءکے بعد 16 سال تک اسٹیٹ بینک کے تین گورنرزآئے تینوں باہر سے آئے جو غیر ملکی اداروں کے نمائندے تھے جو لمحہ فکریہ ہے،لیکن ہم نے اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھائی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ معاشیات کے زیر اہتمام کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقدہ سیمینار بعنوان: ”سندھ اور بلوچستان میں پانی کی کمی اور غذائی عدم تحفظ پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات : آگے بڑھنے کا راستہ“ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پرجامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمو دعراقی، رئیسہ کلیہ فنون وسماجی علوم پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس،رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر عبدالوحید،صدر شعبہ معاشیات ڈاکٹر نورین مجاہد، ڈاکٹر ذاکر حسین دہری، مسعود لوہار ،پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد، ماہین سلمان ،سیمی کمال اور انیق اعظم ودیگر موجود تھے۔ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ ہماری معاشی پالیسیوں کا یہ حال ہے کہ ہم نے امپورٹ ڈیوٹیزکم کردیں اور ڈومیسٹک ٹیکسز بڑھادیئے ،خام مال پر امپورٹ ڈیوٹی کم اور فنش پروڈکٹ پرزیادہ ہونی چاہیئے تاکہ لوگوگ خام مال منگواکریہیں پر بنائیں اور روزگار کے مواقع میسر آئے لیکن ایسا نہیں ہے ہمارے یہاں کتابوں پر ڈیوٹی نہیں ہے یونیسکو کے پروٹوکول کی وجہ سے لیکن کاغذ کے درآمد پر بہت زیادہ ڈیوٹی ہے ،اُردو کے قاعدے چین ،ملائیشیاءاور انڈونیشیاءسے چھپ کرآرہے ہیں اور ہماری پرنٹنگ انڈسٹریز موت کا شکارہیں ۔پاکستان میں انڈسٹریزپر جان بوجھ کر کوئی توجہ نہیں دی جارہی اور جب آپ کے پاس انڈسٹریز نہیں ہوگی توآپ کے پاس روزگارکے مواقع میسر نہیں ہوں گے اور بیروزگاری بڑھے جس کے اثرات آج کل بخوبی نظرآرہے ہیں۔ہماراسب سے بڑا سماجی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لئے آوازنہیں اُٹھاتے احتجاج نہیں کرتے،ہمیں اپنے حقوق کے لئے آواز اُٹھانی ہوگی۔جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ حالیہ تباہ کن سیلاب سے 33 ملین سے زیادہ لوگو متاثر ہوئے اور 80 لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوئے ہیں ۔سندھ اور بلوچستان کا 67 فیصدرقبہ متاثر ہواہے اور تقریباً 80 لاکھ ہیکٹر رقبہ سڑکوں ور ریلوے نیٹ ورک کے ساتھ مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور مجموعی طور پر تین ارب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوچکاہے۔حالیہ تباہ کن سیلاب کے خوفناک نتائج برآمد ہورہے ہیں جس کے سب سے زیادہ اثرات ملک کی معاشی سرگرمیوں اور صحت پر مرتب ہورہے ہیں ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں اور حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسی سازی کرنے اور انفرااسٹرکچر مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک کی معاشی خوشحالی کی قیمت اداکررہے ہیں ۔تیزی سے بدلتے موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ہر سال پاکستان میں درجہ حرارت میں اضافہ ہورہاہے ۔اگر اس کے لئے بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو اس کے خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔ڈائریکٹر جنرل آف پاکستان ایگریکلچر ریسرچ ساﺅتھ ریجن ڈاکٹر ذاکر حسین دہری نے کہا کہ پاکستان عالمی گرین گیسز کے اخراج میں اگرچہ 0.9 فیصدحصہ ڈالتاہے لیکن 10 سب سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انتہائی خطرے سے دوچارہے کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک اور زراعت اور قدرتی وسائل پر موسمیاتی تبدیلیوں کے بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے امسال ریکارڈ توڑ بارشیں ہوئیں ہیں ۔بانی وسی ای اوکلفٹن اربن فاریسٹ مسعود لوہار نے کہا کہ کس نے فیصلہ کیا تھا کہ کراچی میں 5.7 ملین کونو کارپس لگاکر کراچی کے ایکوسسٹم کو تباہ کردو،ہمیں مقامی پودے لگا کر ایکوسسٹم کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔پاکستان کی 10 فیصد آبادی کراچی میں مقیم ہے اور کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے ، لیکن کراچی کے انفرااسٹرکچر کا کوئی پرسان حال نہیں ہماری نوجوان نسل کو چاہیئے کہ وہ اس حوالے سے لوگوں کو آگاہی فراہم کریں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لئے اقدامات کریں ورنہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو سوائے اذیت کے کچھ نہیں دے پائیں گے۔ڈین آف آرکیٹکٹ اینڈ پلاننگ این ای ڈی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمدکہا کہ حالیہ سیلاب 2010 ءکے مقابلے بہت زیادہ تباہ کن ہے ،ہمیں آئندہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے نکاسی آب اور انفرااسٹرکچر کو بہتر کرنا ہوگا ۔لوکل گورنمنٹ کا نہ ہونا ایک المیہ لوکل گورنمنٹ کی موجودگی ان تباہ کاریوں سے بچنے میں کافی مدد مل سکتی تھی ۔سینئر وائس پریزیڈنٹ کورنگی ٹریڈ ایسوسی ایشن ماہین سلمان جان بوجھ کر ہمیں درآمدی معیشت بنایاگیااور جس طرح موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مرتب ہورہے ہیں اسی طرح درآمدات کے پاکستانی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔پاکستان میں جان بوجھ کر صنعتوں کو اُوپر نہیں آنے دیا جاتااور درآمد ات پر زوردیاجاتاہے جس سے ایک طرف بیروزگاری بڑھتی ہے تودوسری طرف مہنگائی میں ہوشرباءاضافہ ہوتاہے جس کی مثال آپ سامنے ملک کے موجودہ حالات ہیں۔سیمینار سے حصارفاﺅنڈیشن کی چیئر پرسن سیمی کمال اور انیق اعظم نے بھی خطاب کیا۔
قیصر بنگالی