پاکستان کی عمر 75 سال ہوگئی مگر اس غریب کی بدقسمتی تو دیکھئے بڑھاپے میں بھی سکون میسر نہ آیا۔ اتنے خزانے اور زرخیزی کے باوجود پاکستان اپنے بچوں کو دو وقت عزت کی روٹی کھلانے سے بھی قاصر ہے۔ حالہ سیلاب نے تو رہی سہی ہمت بھی توڑ دی۔پاکستان نے اپنی نقاہت اور کمزوری کو دیکھتے ہوئے اپنے بچوں (عوام) کو نصیحت کرنے کا فیصلہ کیا ’’ پاکستان کا اپنے بچوں کے نام خط ‘‘ میرے بچو ! سب کو معلوم ہے کہ میری پیدائش 14 اگست 1947 کو ہوئی ۔ برصغیر پاک و ہند میں ہندو ارباب اختیار کو مسلم وجود کسی صورت قبول نہ تھا اور وہ مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کو کمزور کررہا تھا۔مسلمانوں کی تعلیم اور مذہبی آزادی سلب ہورہی تھی اور اگر کوئی پڑھ لیتا تو اسے ملازمت نہ دی جاتی۔ معاشی معاشرتی بدحالی کے شکار کے مسلمان جب اپنے رب کی جانب دیکھتے اور التجا کرتے کہ کوئی راہ دکھا دے، کوئی وطن عطا فرما جو تیرے دین کے ماننے والوں کے لئے تیری پیروی کو آسان کرے۔ہمیں اپنے معاملات کی ادائیگی میں آزاد کرے۔
اللہ نے لاکھوں مسلمانوں کی فریاد سنی اور ایک ولی کو پاکستان کا خواب دکھایا۔ پھر یہ خواب دو نظریہ قوم کو الگ کرنے کا سبب بنا جب علامہ محمد اقبالؒ نے خدا ترس محمد علی جناحؒ کو اس (قیام پاکستان) کی تیاری کے لئے آمادہ کیا۔پھر ایک خونیں تاریخ رقم ہوئی۔ اللہ کے دین کی سربلندی پر لاکھوں انسانوں نے شہادت قبول کی۔میرا بچپن مختلف ہاتھوں میں اچھلتے کودتے گزرا مگر کوئی بھی میرا ہمدرد نہ تھا۔سبکی نگاہ میرے خزانوں پر ہوتی تھی۔ہر کسی نے اپنا اپنا حصہ لیا اور میری فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال کر چلتا بنا۔ میری بدنصیبی کہ مجھے میرے اپنے چھوڑ گئے (بنگلہ دیش) میرا گھر ٹوٹا اور اہل خانہ دور ہوگئے۔میں نے ہمت نہ ہاری آندھیوں طوفانوں زلزلوں سے نبردآزما رہا میرے بیٹوں نے یوں تو ہر مصیبت میں میرا ساتھ دیا مگر گھر کی حفاظت کا کوئی مستقل حل نہ نکالا۔نتیجہ یہ نکلا کہ میں آج پہلے سے زیادہ شکستہ ہوں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش ترقی کرگیا کیونکہ اس طرف میری اولاد کو مفلس دھرتی ماں کی بے بسی کا احساس تھا۔انہوں نے بہت کم وسائل کے ساتھ محنت کی اور پورے خلوص سے ماں کی خدمت کی۔آج وہ دنیا کی دوڑ میں شامل ہیں بچو! نقاہت اور بے چینی ہر دم مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ میں اپنی آنکھیں بند کروں تو مجھے اپنے بابا محمد علی جناح ؒ کا پریشان چہرہ نظر آتا ہے۔ان کی آنکھیں سوال کرتی ہیں کہ میں دنیا کی دوڑ میں پیچھے کیوں رہ گیا؟ میرے بابا بہت قابل وکیل تھے اور ان کا خیال تھا کہ میں ان کا نام روشن کروں گا مگر ایسا نہ ہوا ۔میری طبیعت اب ٹھیک نہیں۔میں تمہیں اپنے تجربے کی روشنی میں کچھ سمجھانا چاہتا ہوں۔ کچھ نصیحتیں کرتا ہوں جن پر عمل کرکے تم کم از کم اپنے گھر اور خاندان کی حفاظت کر سکو گے۔ میں دیکھتا ہوں میرے بچوں کے گھر گلی محلے صاف نہیں۔ میرے بچے آپس میں بھائی چارہ اور محبت سے محروم ہیں۔ تم جہاں رہتے ہو وہاں بھی بہت سارے مسائل ہوتے ہیں۔ ان مسائل کی نشاندہی کرنے کا ایک مثبت طریقہ اپناو۔ جہاں بولنے سے کام ہوجائے وہاں بولو، خاموش نہ رہو ۔جہاں لکھنے کی ضرورت ہے وہاں لکھو اور انتظامیہ کو مطلع کرو۔ میر ے بچو:تمہیں جب کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو تم اپنے دوستوں، بہن بھائیوں اور اہل محلہ سے بات کرو۔اپنے سوشل میڈیا پر لکھو اور تم سب مل کر اس کا حل نکالو۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اپنے معاشرے کی بہتری کے لئے استعمال کرو ۔ سیاست پر گفتگو اتنی ہی کرو جتنا تمہیں اثرانداز ہوتی نظر آئے۔ یہاں بیٹھ کر جلی کٹی باتیں کرنے سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا بلکہ ذہنی انتشار میں اضافہ ہوگا۔ سب سے پہلے اپنی معمولات زندگی کو توازن میں لاو۔ پڑوسیوں سے معاملات بہتر کرو اور اردگرد پر نگاہ رکھو۔ محلے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے پہلے نرمی اور پھر گرمی دکھا سکتے ہو مگر گرمی سے پہلے کچھ مثبت سوچ کے حامل ہم خیال بنالو تاکہ تمہارا پلڑا بھاری ہو۔تم اصلاح کرو اور پہلے خودصالح بن جاو
اپنے گھر گلی اور محلے کے ذمہ دار تم ہی ہو۔ میرے بچو۔کوڑا کرکٹ نہ پھینکو، صفائی کرنے والے کی عزت کرو اور اسے کچھ دو چار سو فالتو دے کر گلی کی صفائی کرواو۔ایک دو بار جب خود صفائی کروا لو گے تو کسی دوسرے کو ترغیب دینے کی پوزیشن میں آجاو گے۔ اسی طرح کم آمدنی والے خاندانوں کی مالی معاونت کرو۔ گھر سے پکا ہوا کھانا بھیج دو اور ان کے بچوں کو کچھ نہ کچھ دیتے رہو۔ اس طرح مدد بھی ہوگی اور تمہارے لئے محلے میں عزت بڑھے گی۔ جب ایک محلہ ایسا ماحول ۔پیش کرے گا تو اس کی دیکھا دیکھی دیگر گلی محلوں میں بھی لوگ فلاح و خیر کے لئے کوشش کریں گے۔ یہ سب وہ کام ہے جو تم بآسانی کسی انتظامیہ و وزیر کی مدد کے بغیر بھی کرسکتے ہو۔ یہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں اس لئے بتا رہا ہوں کہ مجھے میرے بیٹوں نے بہت مایوس کیا ہے میں نہیں چاہتا کہ تماری زندگیاں مزید کسی تبدیلی کے انتظار میں خراب ہوں ۔ یاد رکھو۔ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا تبدیلی لے کر۔ یہ بدلاو تمہیں نے اپنے اندر پیدا کرنا ہے اور اسی اندرونی تبدیلی سے باہر انقلاب برپا ہوگا۔ میرے بچو! یاد رکھو رزق حلال میں برکت ہے۔ اللہ نے رزق تمہارے نصیب میں لکھا ہے اسے کوئی دوسرا نہیں چھین سکتا اور جو مقدار لکھی ہے اس سے زیادہ تم حاصل نہیں کرسکتے اسلئے رزق کمانے کے لئے ناجائز ذرائع استعمال نہ کرنا۔ ہمیشہ صحیح راستے کا انتخاب کرنا۔تم آباد رہو، شاد رہو، میرے دل کو تمہاری خوشحالی قوت دے گی۔(فی امان اللہ !تمہارا اسلامی جمہوریہ پاکستان)
یاد رکھو! جو لباس تم۔نے زیب تن کیا ہے تمہاری موت کے بعد اسے بھی تن سیجدا کردیا جائے گا۔ تم اپنے بدن کو ڈھانپنے والے کپڑے بھی قبر میں نہیں لے جاسکو گے تو اتنی جائیدادیں زر و دولت کس کے لئے جمع کرتے ہو؟ اولاد کے لئے ؟ اگر دوسروں کا حق مار کر تم اپنے بچوں کے لئے کچھ جمع کرو گے تو یہی بچے کل تمہاری قبر پر فاتحہ کہنے کا وقت بھی نہ نکال پائیں گے
تم اپنی اصلاح کرکے میری عمربڑھاسکتے ہو۔ جس روش کا کچھ طریق تم کو سمجھایا اسی پر چلتیرہو۔قران و سنت سے رہنمائی لو اور انہیں کو اپنا امام بنا لو
میرے بازو تم ہو اور جب تم مضبوط ہوجاو گے تو میرے وجود کا بوجھ اٹھا لو گے۔ میرے دل کی تسکین اسی میں ہے کہ میں اپنے بابا محمد علی جناح کی توقعات و معیار پر پورا اتروں اور اس کے لئے مجھے تمہارا خلوص اور تعاون درکار ہے۔