میں آپ سے ہی مخاطب ہوں ۔ پاکستان کروڑوں شہریوں کا وطن ھے جو تحریک پاکستان کے شہیدوں کی امانت ھے۔ یہ آپ کا وراثتی کھیت نہیں جسے آپ اپنی مرضی اور چاؤ سے کاشت کرو یا اسے بنجر ویرانہ بنا دیں جہاں الو بھولتے ہوں۔ اللّٰہ کے فضل سے آپ ایک خود مختار مسلمان ملک کے باشندے ہیں اسی آزاد اور خوشگوار ماحول کو مزید پھیلائیں جس میں اللّٰہ تعالٰی نے ہمیں ودیعت کیا ھے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہم وسائل کے اعتبار سے اور بدنظمی کی وجہ سے پسماندہ ملک شمار ہوتے ہیں ۔ اللّٰہ نے مگر ہمیں نہ تو غریب پیدا کیا ھے اور نہ غریب رکھنا چاہتا ھے۔ ہماری مٹھی اور گرفت میں وہی کچھ ھے جس کے لیے ماضی میں ہم نے کوششیں کیی۔ یاد رکھیں اللّٰہ نے کہہ رکھا ھے۔ انسان کو وہی کچھ ملتا ھے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ھے۔ ہمارا یہ بھی ایمان ھے کہ اللّٰہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔معاشرے کے چہرے پر تازگی اور ماحول ۔میں بہتری تب تک نہیں آتی جب تک کوئی خوف خدا رکھنے والا خوش دل فرد اخوت پسند معاملات میں پائے جانے والے بگاڑ کی اصلاح کرنے آگے نہ آئے ۔عالمی کلب کا ممبر ہونے کے ناطے سے ، یاد رکھیںسیاسیات ،( بین الاقوامی تعلقات) کا پہلا سبق ھے کہ بین الاقوامی کلب میں کوئی ملک دوسرے ملک کا دوست نہیں ہوتا ۔ وہ صرف اپنے ریاستی عوام کا دوست ہوتا ھے، اور اسے انہیں کا مفاد عزیز۔ ۔ یہ حقیقت کسے نہیں معلوم کہ ریاست کی تشکیل ہی اس مقصد کے لیے کی جاتی ھے کہ وہ اپنے عوام کا جامع تحفظ( جان و مال عزت آبرو اظہار رائے اور روزگار) یقینی بنائے۔ ریاست کی دولت کی مساوی تقسیم کر کے انہیں خوشگوار اور خوشحالی کی زندگی فراہم کرے۔ اگرچہ اللّٰہ نے دنیا میں کوئی ملک غریب نہیں بنایا، ہر ملک کو طرح طرح کے وسائل اور دولت سے نواز رکھا ھے ، اس کے باوجود کوئی بھی ملک اپنی قومی ضروریات میں کلی طور پر خود کفیل نہیں ہوتا۔ لہذا انہیں دوسرے ۔ممالک سے تعلقات قائم کرنا اور کئی شعبوں میں معاونت کے لیے طرح طرح کے معاہدے کرنا پڑتے ہیں جو سفارتی کوششوں ہی سے ممکن ہو پاتے ہیں۔ ان کوششوں کو تعمیری اور دوستانہ سفارت کاری تسلیم کیا گیا ھے۔ ایسی سفارت کاری سے فریقین ممالک میں خوشحالی آتی ھے، عوام ایک دوسرے کے ہمہ جہت تجربات سے فائدے اٹھاتے اور عالمی امن میں وسعت اور پائیداری کا سبب بنتے ہیں۔ جب کہ بین الاقوامی سطح پر کچھ ممالک میں طے پانے والے معاہدے واقعتاً ، Dirtiest Act ناپسندیدہ سفارت کاری کے ضمرے میں آتے ہیں، جیسے سیٹو سینٹو اور نیٹو جیسے معاہدات نے دنیا کو نہ صرف دو بلاکس مین منقسم کیا بلکہ عشروں سے ایک سرد جنگ کا ماحول پیدا کر رکھا ھے قوموں کی سفارتی زندگی میں بین الاقوامی امور، اجلاس ، سیمینارز ، ورکشاپس کے شرکاء کے درمیان بحث و مباحثہ اور مذاکرات کے درمیان الفاظ کا چناؤ جس نفاست اور شائستگی سے کیا جاتا ھے اسے ڈپلومیسی یعنی سفارت کاری کہا جاتا ھے ۔۔یہ الفاظ سماعت میں بڑے نرم و نفیس سنائی دینے والے ہوتے ہیں۔ کئی معاملات میں مگر ان کی تاثیر بڑی تلخ اور ناگوار ہوتی ھے ۔ Will Durante , اپنی کتاب میں سفارت پر لکھتے ہیں، " The dirtiest act doing in nicest way , is called DIPLOMACY. زندہ مثال ذولفقار علی بھٹو کا ،1971 میں اقوام متحدہ میں پولینڈ کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کو پھاڑنا یاد کر لیں۔ بھٹو نے تقریباً ڈیڑھ سو ممالک کے نمائندوں کی توہین کی اور قرارداد پیش کرنے والے ملک کا مذاق اڑایا۔ نتیجتاً دنیا کو اپنا مخالف بنایا اور ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔ تاریخ میں ریاست کی ساکھ بنانے کے لیے برسہا برس لگتے ہیں اور اسے ڈبونے کے لیے چند لمحے ہی کافی ہوتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں "لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی " پاکستان روز اول سے اس سفارت کاری، Dirtiest Act کا یہود و ہنود و نصارٰی کے ہاتھوں شکار ہوتا آ رہا ھے۔ مثلآ امریکہ ہمارے ریاستی معاملات میں ہمیشہ دخل اندازی کرتا رہا ھے مگر ہمارے حکمران ، سفارت کار اور دیگر زمہ دار شعبے کبھی ایسی جرآت کردار کا مظاہرہ نہ کر سکے کہ وہ امریکہ کے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر کوئی زور دار احتجاج ہی کرتے ۔ سب کچھ اشاروں کنایوں میں کہا جاتا رہا جو " رات گئی بات گئی" کے مصداق ہی رہے۔ 1947 میں اصولاً کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا تھا مگر مجرمانہ ڈھٹائی سے اقوام متحدہ نے امریکی سر پرستی میں کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرا کر نہ ختم ہونے والے قضئیے میں بدل دیا۔" The dirtiest act،"
1965 کی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ کے عین درمیان پاکستان کے فائٹر جہازوں ( 104) کے پرزے سپلائی کرنے سے منکر ہوگیا۔ " The dirtiest act" 1971 میں ہندوستان کی پاکستان کو توڑے والے آپریشن کی جنگ میں امریکہ ہماری مدد کے لیے اپنا ساتواں بحری بیڑہ بھیجوانے کی نوید تو دیتا رہا مگر وہ بحری مدد کبھی نہ پہنچی ۔ پاکستان دو لخت ہوگیا۔ " The dirtiest act "سیاچین کی لڑائی ( کارگل آپریشن) میں امریکہ نے پاکستان کی پیٹھ میں مکاری اور بدترین سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کی کھلم کھلا حمایت کی، میمو گیٹ اسکینڈل میں ( ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن آپریشن ) امریکہ اور کچھ ۔ہمارے اپنوں نے بھی جی بھر کے…!!
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو گلا تجھ سے ھے یورپ سے نہیں