پرو فیسر انور جلا ل کا شمار اٹک تاریخ میں قابل ترین اساتذہ میں ہو تا ہے۔ گورنمنٹ کالج اٹک میں اپنی35 سالہ تدریسی زندگی میں انہوں نے بے شمار ایسے گوہر نایاب ایسے پیدا کیے جنہوں نے آئندہ زندگی میں نام کمایا، سر انور جلال اس وقت لاہور میں رہا ئش پذیر ہیںمجھ سمیت میرے خاندان کے متعدد افراد کو سر انور جلال کی شاگردی کا اعزاز حاصل ۔ کچھ عرصے سے سر انور جلا ل کی کتاب ’’ صبح کا انتظار‘‘ زیر مطالعہ ہے ۔سب سے پہلے افسانے داغ ناتمامی میں کیا خوب صورت اختتام ہے کہ اتنا حیران کن منظر میں نے اپنی زندگی میں پہلے نہیں دیکھا۔قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کا اس کے گرد گھیرا کدھر گیا؟دونوں فل بیک پیچھے رہ گئے۔وہ ڈی کے انتہائی بائیں طرف آگیا۔مخالف ٹیم کے لیفٹ ہاف نے اس کی ٹانگ پر ہاکی ماری۔اس نے اچھل کے نہ صرف اپنی بائیں ٹانگ بچائی بلکہ ہاکی والا ہاتھ بلند کرکے زوردار ہٹ لگا کر پھٹہ کھڑ کا دیا اور ریفری نے وسل بجا کر گول کا اعلان کر دیا اچھو ہاتھ میں ہاکی لیے پوری طاقت سے اچھلا۔افوہ یہ کیا؟ادھر ریفری نے میچ کے خاتمے کی وسل بجائی،ادھر اچھو کے منہ سے خون جاری ہو گیا۔وہ بڑے زور سے زمین پر گر پڑا۔اس لمحے کوئی بڑے کرب سے چلایا۔یہ عظیم میا ں تھے۔میں اور وہ ڈاکٹر کے ساتھ اس کے قریب پہنچ گئے۔آہ اس کا سرخ چہرہ زرد پڑ گیا تھااور شرٹ خون سے بھر گئی تھی۔ساری امنگیں ولوے، وصلے ، چکنا چور ہو گئے تھے۔ڈاکٹر نے اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا ور سر جھکا لیا اچھو مر چکا تھا،اس کے دونوں پھیپھڑے پھٹ گئے تھے‘‘اور پھر کتنا آساں ہے بے وفا ہو نا نامہ افسانے میں ابتدائی سطروں میں تو جیسے الفاظوں میں موسیقی کا گمان ہو تا ہے زینب اتنی پیاری اور دلکش عادات کی مالک تھی کہ بات کر کے دوسروں کا دل مٹھی میں لے لے۔تیرہ برس کی عمر اٹھتا ہوا قد،کالی سیاہ آنکھیں اور کمر پر جھولتے بال،وہ ایک ہر نی تھی جو کہیں مر غزار سے راستہ بھٹک کر ادھر کو آنکلی تھی۔ سر انور جلال نے آخری دو ابواب راہِ پر خار اور یہ بستی یہ لوگ میں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد اسلم کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور اس کے ساتھ اپنی زندگی کا بھی خوب صورت خلا صہ پیش کیا جو بے مثال ہے۔صبح کا انتظار زندگی کے تمام احساسات کا انتہائی مسحورکن امتزاج ہے۔ایسا محسوس ہو تاہے کہ ایک ایک لفظ میں احساس اور زندگی کے مختلف روپ ہیں۔میں ادبی دنیا کے تمام محبان کو خوب صورت کتاب کے مطالعے کی دعوت دیتا ہوں۔
(شہزاد نیاز کھوکھر، تعلقات عامہ ، اٹک )