دنیا بھر میں اہم حکومتی عہدیداروں کی مختلف امور سے متعلق کی جانے والی گفتگو کو محفوظ بنانے کے لیے سکیورٹی ادارے کئی طرح کے اقدامات کرتے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حساس معاملات کے حوالے سے ہونے والی بات چیت صرف ایک محدود حلقے تک ہی رہے اور عوام تک صرف وہ باتیں پہنچائی جائیں جو اتفاق رائے کے بعد فیصلوں کی شکل میں ڈھل جائیں۔ کسی بھی ملک اور اس کے اداروں کے لیے یہ معاملہ کتنا حساس ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ سابق امریکی صدر جارج بش کی کتاب Decision Points میں بیان کیے جانے والے اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ چین کے دورے کے موقع پر جب ایک حوالے سے مشاورت کے لیے انھوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ کولن پاول، قومی سلامتی کی مشیر کونڈولیزا رائس اور قصرِ سفید یعنی وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف اینڈریو کارڈ کو اپنے پاس بلایا تو انھیں لگا کہ صدر کے کمرے میں ہونے والی گفتگو کسی مشین وغیرہ کے ذریعے ان کانوں تک بھی پہنچ سکتی ہے جن تک اسے نہیں پہنچنا چاہیے، لہٰذا ان کی مشاورت کے لیے ایک خصوصی خیمے کا اہتمام کیا گیا تاکہ وہ گفتگو صرف ان چار افراد تک محدود رکھی جاسکے۔
پاکستان میں بھی سکیورٹی ادارے صدرِ مملکت اور وزیراعظم سمیت تمام اہم عہدیداروں کی گفتگو کو محفوظ بنانے کے لیے دن رات کام کرتے رہتے ہیں لیکن دو روز پہلے وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنمائوں اور وفاقی وزراء کے اجلاس کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگ منظرِ عام پر آنے سے وزیراعظم ہائوس کی سکیورٹی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس ریکارڈنگ میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سمیت دیگر رہنما محو گفتگو ہیں۔ لیک ہونے والی آڈیو میں مبینہ طور پر نون لیگی رہنما اور وفاقی وزراء پی ٹی آئی کے استعفوں پر بات کر رہے ہیں۔ آڈیو میں استعفوں کی منظوری کے لیے لندن سے اجازت لینے کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ وزیراعظم ہائوس میں ہونے والے مختلف اہم اجلاسوں کی آڈیو ریکارڈنگز ہیکرز نے ڈارک ویب پر نیلامی کے لیے بھی ڈال رکھی ہیں۔
اندریں حالات، جائز طور پر یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا وزیراعظم ہائوس اتنا غیر محفوظ ہے کہ وہاں ہونے والی گفتگو کہیں اور سنی جاسکتی ہے؟ یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا وزیراعظم ہائوس میں قومی سلامتی کے معاملے پر کوئی اجلاس ہو سکتا ہے؟ کیا وزیراعظم ہائوس میں ایسے خفیہ ریکارڈنگ سسٹم لگے ہوئے ہیں جنھیں حکومتی ارکان بھی نہیں جانتے؟ وفاقی وزیر داخلہ نے اس معاملے سے متعلق ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے جو بات چیت کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ انکوائری سے پتا چلے گا کہ پی ایم ہاؤس کی سکیورٹی بریچ ہوئی یا نہیں۔ بغیر انکوائری آڈیو لیک معاملے کو سیریس نہ بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انکوائری میں ثابت ہوا کہ پی ایم ہاؤس میں ریکارڈنگ ڈیوائس تھی تو یہ سیریس معاملہ ہوگا۔ دوسری جانب، وزیراعظم نے آڈیو لیک معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی انکوائری شروع کروا دی ہے۔
اس سلسلے میں یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ 2010ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت وزیر اعظم ہائوس میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہو رہا تھا جس کے دوران سکیورٹی عملے نے وزیراعظم کو بتایا کہ یہ اجلاس کسی جگہ سے مانیٹر ہورہا ہے لیکن اس کام کے لیے اس قدر جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے کہ سکیورٹی حکام اسے روکنے سے قاصر ہیں۔ ظاہر ہے اس صورتحال میں وزیراعظم اور اجلاس کے دیگر شرکاء بہت محتاط ہو گئے ہوں گے اور انھوں نے حساس نوعیت کی کوئی بھی بات کرنے سے گریز کیا ہوگا۔ اس واقعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سکیورٹی ادارے اہم اجلاسوں پر مسلسل نظر رکھتے ہیں اور اس دوران وہ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ ان اجلاسوں میں ہونے والی بات چیت غیر متعلقہ افراد تک نہ پہنچ سکے کیونکہ ایسا ہونے سے کئی قومی راز بھی ملک دشمن عناصر تک پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
عام طور پر سکیورٹی ادارے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو کو یوں محفوظ بنایا جائے کہ ایک خاص حلقے سے باہر وہ گفتگو کسی بھی اور کے کانوں تک نہ پہنچے لیکن سیاسی شخصیات کے حوالے سے یہ آڈیو ریکارڈنگ کے لیک ہونے کا پہلا واقعہ نہیں اور ایسے واقعات کے جو اثرات ہوتے ہیں انھیں دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا آخری واقعہ بھی نہیں ہوگا۔ اس وقت سیاسی قیادت کو اس واقعے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ بہت ہی آسان کام ہے اور اس کے ذریعے جمہوریت مخالف یا ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں توجہ کا مرکز اس بات کو بننا چاہیے کہ اگر بات چیت واقعی ریکارڈ ہوئی ہے تو کس نے اور کیسے کی؟ اور پھر کن مقاصد کے تحت اسے منظرِ عام پر لایاگیا؟ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جسے سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھا کر نظر انداز کردیا جائے۔