14جون 2022ء سے شروع ہونے والی مون سون بارشیں توقع سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوئیں اور اب تک (14 ستمبر 2022ء ) کی رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں 1 ہزار 427 افراد جاں بحق، 12 ہزار 742 زخمی، 8 لاکھ 83 ہزار 268 مال مویشی ہلاک، 5 لاکھ 67 ہزار 688 گھر مکمل تباہ، جبکہ 11 لاکھ 83 ہزار 140 گھر جزوی تباہ ہوچکے ہیں۔ مجموعی طور پر 6 ہزار 579 کلومیٹر سڑکیں، 246 پل اور 173 کام کی جگہیں تباہ ہوئیں۔ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں مجموعی طور پر ساڑھے تین کروڑ سے زائد پاکستانی بے گھر ہوئے، جن میں سے اس وقت6 لاکھ 34 ہزار 749 افراد خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں 30 لاکھ ایکڑ سے زائد (8300 مربع کلومیٹر) پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے زراعت کو تقریباً 800 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ملک کا کم و بیش ایک تہائی حصہ ڈوبنے سے مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ حالیہ سیلاب نے 2004ء اور 2010ء کے سیلابوں کا ریکارڈ بھی توڑدیا۔ سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث زرعی پیداوار میں 20 فیصد تک کمی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔اقوامِ متحدہ کے فنڈ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے 30 لاکھ سے زائد بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کے مصائب و آلام کی دل دہلا دینے والی داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ اس مرتبہ جتنی بڑی تباہی ہوئی ہے، اس کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لوگوں کی مکمل بحالی کیلئے بہت زیادہ وسائل درکار ہوں گے اور اس کام میں مہینوں نہیں بلکہ کئی برس لگ سکتے ہیں، لیکن اس عرصے میں کیا معاشی، سماجی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے ؟ اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگا رہا۔ سوشل میڈیا پر روزانہ ایسی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ امداد یا ہمدردی کے لئے پہنچنے والے سیاسی رہنماؤں خصوصا وزراء ، اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کے خلاف لوگ نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ سیاسی رہنما لوگوں کے غم و غصے اور اشتعال سے بچنے کیلئے گاڑیوں میں بیٹھ کر فرار حاصل کرتے ہیں۔ یہ واقعات سندھ میں ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی رونما ہو رہے ہیں۔ بھوک و افلاس کے باعث متاثرینِ سیلاب کی طرف سے امدادی سامان لوٹنے کے واقعات بھی عام ہیں۔ ایسے واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے معیشت، سماج اور سیاست پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
سیلاب سے پہلے ہی وطنِ عزیز شدید معاشی بحران کا شکار تھا۔ حکمرانوں کی کرپشن اور نااہلی کے باعث طفیلی اور مقروض معیشت کے باعث ملک آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی سْودی اداروں کے ہاں پہلے ہی گِروی رکھوادیا گیا تھا، لیکن زلزلے ، کورونا وبا ، غیر متوقع بارشوں ، سیلاب، گرمی اور دیگر موسمیاتی/ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستانی معیشت اب دہائیاں پیچھے چلی گئی ہے۔ ملکی معیشت کو جو مجموعی نقصان ہوا ہے وہ اپنی جگہ بہت بڑا نقصان ہے لیکن سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ خاندانوں کا جو نقصان ہوا ہے ، اس کا فوری ازالہ نہ کیا گیا تو اس کے مزید خطرناک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ اس وقت حکومتیں، فوج ، فلاحی و خیراتی ادارے اور این جی اوز وغیرہ متاثرین کو خیمے، خوراک، دوائیں اور دیگر ضروری اشیاء پہنچانے کی حتی الوسع کوششیں کر رہی ہیں مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گا۔ متاثرین پھر بے یارومددگار ہوں گے۔ انہیں اپنے گھر تعمیر کرنا ہیں۔ انکے مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور ان کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، جن پر ان کی معیشت کا انحصار اور گزر بسر تھی۔ متاثرین کی مکمل بحالی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ ہی اب اس کی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ 25یا 50 ہزار روپے فی خاندان دے کر حکومتیں بری الذمہ ہو جائیں گی اور پھر متاثرین کو حسبِ سابق ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ ظاہر ہے اس معمولی امداد سے ( جو کسی کو ملے گی اور کسی کو نہیں ملے گی ) متاثرین نہ تو اپنے گھر دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی روزی روٹی بحال کر سکتے ہیں ، لہٰذا وہ مجبوراًکوئی دوسرا راستہ اختیار کرینگے۔ وہ یا تو شہروں کی طرف ہجرت کرینگے ، جیسا کہ ماضی کی قدرتی آفات میں ہوتا رہا ہے یا پھر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے خدانخواستہ وہ کچھ کرگزریں گے جو وہ نہیں کرنا چاہتے۔ سیلابی پانی سے وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں، حاملہ خواتین اور بچے زیادہ متاثر۔ متعدد بچے جان کی بازی ہار گئے۔ بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب کے اضلاع سے تاحال سیلابی پانی نہیں نکالا جاسکا۔ خیبر پختونخوا میں حالیہ سیلاب سے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان، وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ اس تمام تر صورتِ حال میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی سماجی ہیجان میں مزید شدت کا باعث بن رہی ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں میں سیاسی رہنماؤں کیخلاف نعرے بازی متاثرین کا فطری ردِعمل ہے۔ اپنی چھت، مال مویشی، خوراک اور روزگار/ذریعہ معاش سے محرومی کے بعد حکومت کی طرف سے بروقت اور حسبِ ضرورت امداد نہ ملنے کے باعث متاثرین شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ دوسری طرف12 دوست ممالک اور 3 بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے مجموعی طور پر 104 پروازوں میں آنے والی امداد کی تقسیم کی کوئی باقاعدہ جھلک نظر نہیں آرہی۔ یہ ساری صورتِ حال مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے تعین کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے اور آئندہ الیکشن میں واضح برتری حاصل کرنے کے لییبڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی پوری قیادت بشمول عمران خان کی توجہ سیلاب زدگان کی بحالی اور اْن سے عملی اظہارِ ہمدردی کے بجائے جلد از جلد نئے انتخابات کا راگ اِلاپنے کی طرف ہے۔ ایک طرف عوام ان تینوں بڑی جماعتوں سے بیزار ہیںتو دوسری طرف الخدمت فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے سیلاب زدگان کی بھرپور اور بروقت مدد سے یہ نعرہ اب عوام کی مجبوری بنتا جارہا ہے کہ ’’حل صرف جماعتِ اسلامی‘‘۔
اگرچہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ عیاں ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں، امداد اور بحالی کے کاموں میں حصہ لینے والے سرکاری اداروں، قومی و بین الاقوامی این جی اوز، فلاحی تنظیموں سمیت مخیر حضرات کی کثیر تعداد نے بڑھ چڑھ کر سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی میں مقدور بھر حصہ ڈالا اور یقیناً دکھی اور مصیبت زدہ انسانیت کے لیے اس کارِ خیر پر وہ بارگاہِ ایزدی میں اجر و ثواب کے مستحق ٹھہرے، تاہم دوسری طرف اس حقیقت سے بھی صرفِ نظر ممکن نہیں کہ بہت بڑے پیمانے پر بیرونی ممالک، اداروں سے ملنے والی بھاری بھرکم امداد کے باوجود صوبائی اور وفاقی حکومتوں، اداروں کی طرف سے حالیہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے حوالے سے اب تک کیے گئے اقدامات ناکافی اور کسی کثیر الجہتی منصوبہ بندی سے عاری نظر آرہے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظراقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیوگوتریس نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کے بقول پاکستان میں حالیہ سیلاب کی تباہی تصورسے زیادہ ہے، گلوبل وارمنگ دوسروں کی غلطی جبکہ سزا پاکستان بھگت رہا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے بجا طور پر مطالبہ کیا کہ بلاتاخیر بحالی اور تعمیرِ نو کے کاموں میں بلاتاخیر پاکستان کی مدد کی جائے۔ یو این سیکریٹری جنرل نے مزید کہاکہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے باعث انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، پاکستان کو فوری طور پر بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو مشکل کی اس گھڑی میں فرخدالی سے پاکستان کی مدد کرنی چاہیئے۔ پاکستان میں سیلاب سے جو تباہی دیکھی ہے دنیا میں کسی بھی آفت کے دوران اتنی تباہی نہیں دیکھی۔
موسمیاتی تبدیلی آج کا ایک بڑاعالمی مسئلہ ہے۔ پاکستان دوسرے ممالک کے اقدامات کی قیمت چکارہا ہے ، کاربن کے پھیلائو میں20 ممالک کاحصہ 80فیصد ہے، جبکہ پاکستان ماحولیاتی آلودگی کا صرف ایک فیصد ذمہ دار ہونے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ شکار 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آگے آنا چاہیئے۔ صنعتی ممالک کو بدترین کاربن کے اخراج میں کمی کرنی چاہیئے۔ یہ سچ ہے کہ قدرتی و سماوی آفات سے لڑنا ممکن نہیں مگر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات تو ہوسکتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ مزید تباہی کا انتظار کیے بغیر بلاتاخیر ملک میں نئے آبی ذخائر اور ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے متفقہ بنیادی فیصلے کرلیے جائیں۔