آئین کی عملداری کی تضحیک

مجھے یہ کہنے میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوئی کہ آئین پاکستان کوئی صحیفۂ آسمانی نہیں ہے۔ اس میں ترمیم و تبدیلی بھی ہو سکتی ہے، اسکی کچھ شقیں حذف بھی کی جاسکتی ہیں‘ اس میں نئی شقوں کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے اور اسکی عبارت بھی تبدیل کی جاسکتی ہے جبکہ پہلے آئین کو ختم کرکے نیا آئین بھی لایا جا سکتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ قاعدے قانون اور آئین ہی میں درج طریق کار کے تحت ہی ممکن ہے۔ بے شک آئین پاکستان میں تمام ریاستی اور حکومتی انتظامی اداروں اور انکے سربراہان کی ذمہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے اور جب ملک کا سسٹم اور ر یاستی اتھارٹی آئین کے تابع ہو تو اسے آئین کے مطابق ہی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینی ہیں۔ 1956ء اور 1962ء کے دساتیر میں آئین کے مطابق کام نہ کرنے یا آئین کے تقاضے نہ نبھانے اور اسے توڑنے موڑنے کی دفعہ 6 والی سزا موجود نہیں تھی اس لئے متذکرہ دساتیر والے ادوار میں آئین سے کھلواڑ ہوتا رہا تو اس پر متعلقین آئین سے غداری والے جرم سے محفوظ رہے جبکہ 1973ء کے آئین میں آئین کے تحفظ و عملداری ہی کی خاطر بطور خاص دفعہ 6 کو آئین سے غداری کرنے والوں کیلئے مستوجب سزا بنایا گیا جو موت کی سزا ہے۔ اسکے باوجود آئین کی عملداری کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ جنرل ضیاء الحق نے آئین کو معلق کرکے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب جمہوری حکومت کا پٹڑا کیا اور خود ماورائے آئین اقدام کے تحت اقتدار پر براجمان ہو گئے اور مسلسل گیارہ سال تک سیاہ و سفید کے مالک رہے تاآنکہ بہاولپور کے ایئرکریش میں وہ اپنے خالقِ حقیقی کو جا پہنچے۔ اگر وہ آج بھی زندہ ہوتے تو یقین جانیئے، تاج برطانیہ کی طرح انکی شہنشاہیت آج بھی قائم و دائم ہوتی۔ وہ اس جہانِ فانی سے گزر گئے تو انکے جانشینوں نے انکی موت کے بعد انکے ماورائے آئین اقدام والے آئین سے غداری کے جرم سے صرفِ نظر کرلیا کہ اگر لاش کو پھانسی دینے کا فیصلہ بھی عدلیہ سے صادر کرالیا جائے تو لاش کہاں سے لائی جائیگی۔ 
میری رائے میں تو علامتی طور پر ہی سہی‘ جنرل ضیاء کو آئین کی دفعہ 6 کے تحت ’’ہائی ٹریزن‘‘ والے جرم میں مستوجب سزا ضرور ٹھہرایا جانا چاہیے تھا تاکہ یہ سزا آئین کی عملداری کی تضحیک
آنے والوں کیلئے عبرت کی مثال بن پاتی۔ ایسا نہ ہو پایا تو 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے فضا سے ملنے والے اشارے کے تحت نوازشریف کی دو تہائی اکثریت والی منتخب حکومت کیخلاف ماورائے آئین اقدام ہو گیا۔ انکی صدارت سے فراغت کے بعد پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو اسکی قیادت پر ’’جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے‘‘ والی سوچ غالب آگئی حالانکہ جمہوریت آئین کے تحفظ و عملداری کے ذریعے ہی پروان چڑھ سکتی ہے۔ آئین نے اپنی بے حرمتی یا پامالی کا خود تو انتقام نہیں لینا‘ مگر آئین کی دفعہ6 آئین کا حصہ ہے تو اسے آئین شکنوں پر لاگو بھی ہونا چاہیے ورنہ آئین کے تحفظ و پاسداری کا تقاضا کیسے پورا ہو پائے گا۔ 
پھر بھی پیپلزپارٹی نے اس آئینی دفعہ کو چھوئے بغیر اپنا عرصۂ اقتدار پورا کرلیا کہ مشرف نے ماورائے آئین اقدام کے تحت اسکی حکومت تھوڑی ختم کی تھی۔ اسکے بعد 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار کا مینڈیٹ ملا اور میاں نوازشریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو انکے دل میں مشرف کے ہاتھوں اپنی حکومت اور جمہوریت کو لگنے والے زخم کی ٹیسیں اٹھنے لگیں چنانچہ انہوں نے جنرل مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت ریفرنس تیار کراکے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھجوا دیا جنہوں نے اسکی سماعت کیلئے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں خصوصی عدالت تشکیل دے دی جس نے جنرل مشرف کا آئین سے غداری والا جرم ثابت ہونے پر انہیں دفعہ 6 والی سزا کا مستوجب ٹھہرا دیا۔ اس وقت تک پی ٹی آئی کی حکومت تشکیل پا چکی تھی جس کے چیف ایگزیکٹو عمران خان جنرل مشرف پر آئین کی دفعہ 6 کے اطلاق کے سب سے بڑے داعی تھے مگر جب دفعہ 6 کی عملداری کا وقت آیا تو ایوانِ اقتدار کے درودیوار ہلنے لگے اور پھر لاہور ہائیکورٹ نے جنرل مشرف کو محفوظ راستہ دے دیا۔ 
جنرل مشرف کو دفعہ 6 کی سزا سے کیوں محفوظ کیا گیا‘ اس کا عقدہ تو پی ٹی آئی کے دور میں تب کھلا جب حکمران طبقات ہی کی جانب سے آئین سے کھلواڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ عمران خان صاحب وزیراعظم کی مسند پر براجمان ہو کر آئین کے تحت قائم جمہوری نظام کی بھد اڑاتے اور چین‘ امریکہ‘ سعودی عرب کے نظام ہائے حکومت کی ستائش میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے اور ایسے ہی نظام اپنے ملک میں رائج کرنے کے عزم کا اظہار کرتے رہے۔ میں تو پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ آئین کوئی صحیفۂ آسمانی نہیں۔ اگر اسکے تحت قائم سسٹم ہمیں سوٹ نہیں کرتا تو آئین کو تبدیل کرکے کوئی بھی دوسرا سسٹم لے آئیں جو ہمارے حالات و کلچر سے مطابقت رکھتا ہو۔ مگر اس کیلئے کوئی ماورائے آئین اقدام کیا جائیگا تو اس پر آئین کی دفعہ 6 نے بہرصورت حرکت میں آنا ہے۔ 
چونکہ پی ٹی آئی لیڈر شپ کے ذہنوں میں پہلے ہی اپنی من مرضی کے راج کا سودا سمایا ہوا تھا اس لئے انہوں نے اپنے دور اقتدار میں نہ صرف مشرف کو دفعہ 6 کی سزا سے بچائے رکھا بلکہ آئین کو بھی موم کی ناک بنانے کی کوشش کی۔ تو بھائی صاحب! پی ٹی آئی کے دور اقتدار کو بھی ہم ماورائے آئین اقتدار سمجھ لیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ اس اقتدار کے آخری چھ ماہ تو خود حکومت کی جانب سے آئین سے روگردانی کی نادر مثال بن چکے ہیں جب وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کیلئے وزیراعظم‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اور خود صدر مملکت کی جانب سے آئین کو پائوں تلے روندنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی جبکہ صدر مملکت کا تو منصب ہی آئین کے تحفظ و عملداری کو یقینی بنانے کا ہے۔ بالآخر سپریم کورٹ کو ہی آئین کے تحفظ و دفاع کیلئے آگے آنا پڑا اور عدم اعتماد کی تحریک پر آئین کی دفعہ 95 کو اسکی روح کے مطابق لاگو کرانا پڑا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے تحت صدر، وزیراعظم‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے آئین سے انحراف والا جرم ثابت ہو گیا تو یہ درحقیقت آئین کی دفعہ 6 والا جرم ہی ہے مگر عمران خان کے مخالفین کے اقتدار میں آنے کے بعد اس معاملہ میں چپ ہی سادھ لی گئی۔ اس سے بادی النظر میں ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ بظاہر ایک دوسرے کے گریبان تک کی خبر لینے والے حکومتی اور اپوزیشن سیاست دانوں نے آئین کو توڑنا موڑنا اپنا شغل بنائے رکھنے کی خاطر اسکی دفعہ 6 کو نظریۂ ضرورت کی تدفین کیلئے سپریم کورٹ کی جانب سے کھودی گئی قبر کے پہلو میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا ہے۔ نہ رہے بانس‘ نہ بجے بانسری۔ 
فی الوقت تو اس پالیسی کا فائدہ صدر مملکت سمیت پی ٹی آئی قیادت ہی اٹھا رہی ہے جو ریاستی اداروں اور مناصب کی آئینی ذمہ داریوں کو بائی پاس کرکے انکے معاملات میں من مرضی کے فیصلے ٹھونسنا چاہتی ہے۔ اس وقت آرمی چیف کے تقرر کے معاملہ میں اہلِ دانش و سیاست کے ہاتھوں آئین موم کی ناک بنا ہوا ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 243 اور اسکی ذیلی دفعات کے تحت مسلح افواج کے ریاستی ادارے کی ذمہ داریاں اور دائرۂ  کار واضح طور پر متعین ہے۔ دفعہ 243 کے تحت مسلح افواج نے حکومت کے زیرکنٹرول اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور اسکی ذیلی دفعہ 3 کے تحت صدر مملکت نے خالصتاً وزیراعظم کی ایڈوائس پر مسلح افواج کے ادارے میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ چیف آف نیول سٹاف اور چیف آف ایئرسٹاف کا تقرر عمل میں لانا ہے۔ اس کیلئے صدر کو ایڈوائس کرنا یعنی متعلقہ مناصب پر تقرر کیلئے نام بھجوانا وزیراعظم کا صوابدیدی آئینی اختیار ہے جبکہ وزیراعظم کی ایڈوائس پر تقرر پانے والی کسی شخصیت کو متعلقہ منصب پر توسیع دینے کا معاملہ سپریم کورٹ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں طے کر دیا ہے۔ اس لئے ان تقرریوں کے معاملہ میں وزیراعظم کے صوابدیدی آئینی اختیار پر مہر تصدیق ثبت ہو چکی ہے۔ 
عمران خان صاحب تو چلیں اب سابق وزیراعظم ہیں اور اپوزیشن کی سیاست کو چمکانے کیلئے وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں مگر ان کا یہ کہنا بھی آئین کی دفعہ 6 والی پکڑ میں آسکتا ہے کہ ’’چور وزیراعظم‘‘ کو نئے آرمی چیف کے تقرر کا کوئی اختیار نہیں۔ وہ سیاست بازی میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات تک موجودہ آرمی چیف کو ہی برقرار رکھا جائے جس کیلئے بہرصورت سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ہی صاد کرنا پڑیگا۔ مگر جناب صدر مملکت تو خود آئین کے محافظ اور اسکی عملداری کے پابند ہیں۔ اگر انکی جانب سے ہی یہ تجویز پیش کی جارہی ہے کہ آرمی چیف کے تقرر کیلئے تمام قومی سیاسی قائدین آپس میں مشاورت کرلیں تو آئین کی دفعہ 243 کی شق تین تو گئی بھاڑ میں۔ پھر یہ سسٹم آئین کے تابع تو نہ ہوا۔ اگر سسٹم آئین کے تابع ہے تو آئین کے سرکشوں کو بہرصورت مستوجب سزا ہونا چاہیے چاہے وہ صدر مملکت کے اعلیٰ ترین منصب پر ہی کیوں نہ براجمان ہوں۔ آپ آئین کی عملداری کو مذاق بنائے رکھیں گے تو ماورائے آئین اقدامات کے راستے تو آپ خود نکالیں گے۔ پھر ایسے اقدامات والوں کو دوش دینے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ کھایا پیا سب قبول ہے جناب۔

ای پیپر دی نیشن