ٹرانس جینڈر بل سے سقم دور کریں

انتہائی بُوڑھا تقریباً حقیت پر مبنی لطیفہ ہے یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ٹیلیگرام جسے ’’تار‘‘ کہا جاتا تھا کا زمانہ تھا مختصر برقی پیغام پر لفظوں کے حساب سے خرچ آتا تھا لہٰذا انتہائی مختصراور انتہائی ضروری تار بھیجی جاتی ۔غریب اور دیہات کے لوگ تو عام طور پر فوتگی کی اطلاع کیلئے استعمال کرتے۔اسی طرح ایک سادہ لوح ناخواندہ دیہاتی اُس کا بیٹا پڑھ لکھ کر فوج میں بھرتی ہو گیا اور اپنی پرموشن کی اطلاع اپنے گھر والوں کو بذریعہ تار بھیجی جونہی ڈاکیہ یہ اطلاع تار گھرو صول کروا نے گیا کہ آپ کی تار آئی ہے گھر پر موجود فرد نے تار وصول کی بغیر پڑھے یا پڑھوائے صرف تار کا سننا تھا ہرفرد روتا روتا گھر آیا اور کہا کہ ’’تار‘‘ آئی ہے اب گھر کا جو فرد یہ سنتا گیا ساتھ رونے دھونے میں شامل ہوتا گیا اور جو پوچھتا ’’تار‘‘آئی ہے کہہ کر رونا شروع کر دیتے ۔ اڑوس پڑوس سے کوئی پڑھا لکھا ملنے آیا اور رونے دھونے کا سبب پوچھا تو تار آئی ہے بتایا گیا اُس نے تار پڑھی اور بتایا کہ یہ تو خوشی کی خبر تار لائی ہے۔آپ کے بیٹے کو ترقی مل گئی ہے اُس نے یہ خوشخبری جلد پہنچانے کیلئے تار بھیجی ہے۔آج کل یہی حشر ٹرانسجینڈر بل کا ہورہا ہے راقم قطعی طور پر کسی ایسے عمل یا قانون کی حمائت یا تائید کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور نہ اللہ کبھی ایسی توفیق دے کہ اسلام مخالف عمل کی حمایت و تائید کروں یہ بل بھی اگر شعوری یا لاشعوری کسی بھی طرح اسلام کی روح کے خلاف ہے تو اسے فوری طور پر ختم کرنا اور کروانا چاہیے۔ لیکن بظاہر اس کے متن میں ہم جنس پرستی کا کوئی لفظ تک شامل نہیں اور اسے ہم جنس پرستی سے موسوم کر کے ہم جنس پرستوں کو راہ تو نہیں دی جا رہی؟ اور بلا سوچے سمجھے بلا تحقیق پروپیگنڈے کا حصہ بن کر ہم اس کا تعارف تو نہیں کروا رہے ظاہری طور پر تو اس بل کے متن سے اور ہمارے واویلا سے یوں لگتا ہے 
وہ بات جس کا ذکر سارے فسانے میں نہیں
وہ بات اُنہیں سخت ناگوار گزری ہے
مقصد بل کی حمائت کرنا ہرگز نہیں انداز مخالفت سے اختلاف ہے ۔ بل کے سقم کو ہم نے دھکم دھکا ہم جنس پرستوں کے حق میں دھکیل دیا ہے ۔ اسلام مخالف کسی بھی کوشش کو اسی طرح پوری قوم بیک زبان ہو کر ناکام کرنا چاہیے اور اسلام مخالف قوتوں کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ پوری اُمت مسلمہ عموماً اور پاکستانی قوم لاالہ الا اللہ کے نام سے حاصل کر دہ اس خطہ سے جذبہ ایمانی سے بھرپور آواز بلند ہو ئی ہے۔
لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی اسلام مخالف حکومت پاکستان دشمن قوتیں ہمارے اس جذبہ ایمانی سے کھیل نہ سکیں کیونکہ آج میڈیا کا زمانہ ہے جس طرح دوسری جنگوں میں دشمن کا اسلحہ دشمن پر چلانا اُس کا حملہ اُسی پر اُلٹانا مہارت ہے اسی طرح اس ہائبرڈ وار کے دور میں انتہائی محتاط ہو کر اس جنگ کو بھی لڑنے کی ضرروت ہے۔یہ دیکھنے میں آیا ہے اکثر جھوٹ کی سیاست پر یقین رکھنے والی سیاسی قوتیں اورجماعتیں اسلام کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔خطرات کا جھوٹا واویلا شیر آیا شیر آیا کے مصداق خطرات سچ مچ آ جائیں تو کوئی یقین نہیں کرتا مثلاً غدار غدار کے الزامات جب کسی محب وطن پر لگائے جاتے ہیں تو سچ مچ کے غداروں کو تحفظ ملتا ہے ۔ غداری کا الزام محترمہ فاطمہ جناح جیسی عظیم لیڈر کی عظیم بہن پرلگا تو آج بھی غداری کے الزام لگنے پر فخر کیا جاتا ہے ۔ بہت سے تجزیہ نگاروں اور تاریخی دانشمندوں کی رائے ہے ہم نے مجیب الرحمان پر غداری کے غلط الزام لگا کر اُنہیں سچ کا غدار بنا دیا۔ اس میں دشمن بھارت کے میڈیا اور چالوں کا کردار تھا اور ہم اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے۔لہٰذا میڈیا کے مقتدر احباب اور دوسرے با اثر حلقوں سے درخواست ہے کہ موجودہ نازک بحرانی حالات سے گزرتے پاکستان پر رحم کرتے ہوئے ایسے طالع آزما عناصر کی چالوں کو ناکام بنایا جائے او ر حکومت بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے فی الفور وہ سقم دور کریں جن سے ہماری اسلامی عقائد و نظریات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو کیونکہ ہمارا ملک پہلے ہی معاشی بد حالی مہنگائی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے انتہائی مشکلات کا شکار ہے ۔ اُوپر سے مہنگائی بجلی کے بلوں وغیرہ کے غصے میں ببھپرے ہوئے عوام کے غیظ و غضب سے بچیں۔کیونکہ حکومت کو انتہائی نادان اور احمق قسم کی اپوزیشن کا سامنا ہے ۔سو جتنی جلدی ممکن ہو علمائے حق اور اسلامی قانونی دانشوروں کی مشاورت سے ٹرانسجینڈر بل کو درست کروائے۔تاکہ کسی بھی انتشارو افتراق سے قوم کو بچایا جائے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...