کیا عمران خان رابن ہڈ اور راجا پورس بن سکے گا؟

عمران خان نے لوگوں کو جس طرح متحرک کیا ہے اس سے کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ عمران ہجوم کو قوم بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ کافی حد تک عوام متحد ہو کر عمران خان کے جہاد کا حصہ بن چکے ہیں۔ میں اس سے اتفاق نہیںکرتا۔ عمران خان کا ساتھ عوام کی طرف سے ضرور دیا جا رہاہے مگر ایسا بھی نہیں ہے اس سے کایا پلٹ جائے یا انقلاب آ جائے۔ لوگ جذباتی ہو جاتے ہیں ،جنوں کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ وقتی ابال سے زیادہ نہیں ہے۔ حالیہ دنوں سیلاب نے کیا کیا تباہی مچائی، بربادی کی، پانی مکانوں اور درختوں سے بلند ہو کر ہر چیز کو خس وخاشاک کی طرح اڑا کر لے گیا مگر اتر گیا اس کا بہائو مستقل نہیں رہا۔ یہی صورت حا ل ہماری جذباتی قوم کی ہے۔ فطرتاً ہم مقابلہ گریز قوم ہیں۔ اس خطے پر بیرونی حملہ آور آسانی سے تسلط حاصل کرتے رہے اگر مقابلہ کسی نے کیا تو وہ راجہ پورس تھا جیت وہ بھی نہ سکا مگر لڑا تو ضرور تھا۔ باقیوں نے تو بغیر لڑے خود کو بیرونی قذاقوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
ہم لوگ بنیادی طور پر اور عمومی طور پر تماشائی ہیں۔ آج بھی تماشا دیکھ رہے ہیں، کبھی ایک لیڈر کے تھیٹر میں چلے جاتے ہیں کبھی دوسرے لیڈر کے سرکس میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ البتہ تعداد پربات ہو سکتی ہے آج عمران خان کی پذیرائی عروج پر ہے۔ تماشائیوں کی موجودگی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جسے جذبہ و جنوں کا نام دیتے ہوئے امید کی جا رہی ہے کہ قوم عمران کے پیچھے چل پڑی ہے۔ ویسے آج کے معروضی حالت میں الیکشن ہو جائیں تو عمران کی فتح یقینی ہے۔ آج حکمران اور طاقت کا مرکز اسی لیے انتخابات سے راہ فرار اختیارکر رہے ہیں۔ ان کو بخوبی اندازہ ہے کہ عمران خان کہاں ہے۔ اس کی مقبولیت کتنی ہے اور یہ خود کتنے پانی میں ہیں۔ سب کو اندازہ ہے جب بھی الیکشن ہوئے تو کون اور کتنی اکثریت سے حکومت میں آئیگا۔ اس لیے عمران خان کے حوالے اب پاکستان کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے کہ وہ سر پیٹ کر رہ جائے۔قرض کہاں سے کہاں پہنچ گیا، 11سو ارب کے کیسز ختم کر دیئے گئے۔ سیلاب کی تباہ کاری میں 50ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ 17لاکھ گھر مٹی کا ڈھیر بن گئے۔ پانچ کروڑ لوگوں کو چھت اور خوراک کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے کاروبار استوار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف نے 6سال میں صرف 6ارب ڈالر دیئے ہیں۔ سال میں سوا ارب ڈالر سے بھی کم۔ عمران کا تکیہ اوورسیز پاکستانیوں پر رہا ہے۔ تین ٹیلی تھون میں 15ارب روپے اکٹھے ہوئے۔ سیلاب سے نقصان پچاس ارب ڈالر ہوا۔ اوورسیز پاکستانی اس نقصان کو پورا نہیں کر سکتے ، معیشت جہاں ہے وہیں سٹیبل ہو جائے تو اس کو سنبھالنا کسی حد تک ممکن ہوگا مگر جب یہ سوچ ہو کہ اس کو تحت السریٰ تک لے جانا ہے تو جو اس کی حالت ہو گی وہ واضح ہے۔ اوورسیز پاکستانی بھی ایک حد تک مدد کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے کاروبار، دکانیں اور جائیدادیں بیچ کر تو عمران خان پر نچھاور نہیں کریں گے؟ اگر بیچ دیں تب بھی جو نقصان اور خسارہ ہے وہ پورا نہیں ہو سکتا۔ عمران خان نے پہلے معیشت سنبھال لی تھی۔ ان کو اس دوران تجربہ بھی نہیں۔ کرونا سے جس طرح نمٹا اس پر پوری دنیا سے پذیرائی ملی۔ اگر عمران خان حکومت میں آ کرمعاملات کو سنبھال لیتے ہیں تو وہ جدید دور کے رابن ہڈ اور ٹارزن ہوں گے۔
قارئین!یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آزادی کی تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی اس خطے کو بیرونی طالع آزما اور لشکر کشی کرنے والوں نے اپنا تختۂ مشق بنائے رکھا۔جس نے جب چاہا اس خطے کو اپنی گزر گاہ بنایا۔اور اس کے عوام بے بسی سے یہ سارا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے رہے۔ یہ کہنا شاید بجا ہوگا کہ اس خطے میں مزاحمت اور انقلاب صدیوں بعد جنم لیتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خطے نے دُلاّبھٹی، رائے احمد خاں کھرل ، ملنگی ،نظام لوہار اور بھگت سنگھ جیسے مزاحمتی ہیرو بھی پیدا کیے ہیں۔مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے اسی خطے نے سینکڑوں غدارِ قوم اور غدارِ وطن پیدا کیے ہیں۔لیکن اب یہ دھرتی کسی خاموش آتش فشاں کی طرح کئی عشروں سے سلگ رہی ہے مگر اس سے انقلاب نہیں پھوٹنے پا رہا ہے۔مگر اب عمران خان کی جدوجہد، عزم اور ولولہ دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دھرتی کے سینے پر جوالا مکھی پھٹنے کو ہے،یہ کسی انقلاب کا مظہر ہوتا ہے۔
قارئین!حکومت چاہے یا نہ چاہے اور عمران خان کے ساتھ کوئی کھڑا ہو یا چھوڑ جائے مگر میری نظریں یہ دیکھ رہی ہیں کہ اب انقلاب کا راستہ روکنا شاید عمران خان کے لیے بھی مشکل ہوگا۔اور اگلے دس سال سیلاب اور قدرتی آفات سے متاثرہ پاکستان کو دوبارہ سے بنانے میں لگ جائیں گے۔اس لیے عمران خان یا کسی اور سے لمبی لمبی توقعات اور خواب آنکھوں پر سجا لینا خود فریبی کے مترادف ہوگا۔مگر یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ بغیر خوابوں اور عزم کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ اس کے لیے پوری قوم کو متحد ہو کر انقلاب کی صدا دینے والے اس عمران خان کا ساتھ دینا ہوگا۔شاید یہ عمران خان ہی ہوگا جو ہمارا رابن ہڈ ،راجا پورس اور رائے احمد خاں کھرل بن سکے؟

ای پیپر دی نیشن