آج اسرائیل پورے اعتماد کے ساتھ دعویٰ کر رہا ہے کہ کم از کم سات مسلم ممالک اسے تسلیم کرنے والے ہیں اور برادر سعودی عرب کے معاملہ میں عالمی میڈیا کی جانب سے پورے وثوق سے یہ اطلاع نما خبریں دی جا رہی ہیں کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا ہے تو جناب! قومی ہزیمتوں میں اب کون سی کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس بنیاد پر مجھے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کے اس بیان پر قطعاً حیرت نہیں ہوئی کہ پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ سعودی عرب کے فیصلہ کے ساتھ مشروط ہے۔ گویا ”جو کہے اپنا یار‘ بسم اللہ“۔
دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ جن مسلم ممالک کے ساتھ اسرائیل کا تنازعہ ہے‘ وہ ہی اسے تسلیم کر رہے ہیں تو پھر ہمیں کیا پڑی ہے کہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر بیٹھے رہیں۔ گویا ہم بھی جستیں بھر کر اسرائیل کا خیرمقدم کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور اس فیصلے پر سرشاری کے اظہار کے موقع کی تلاش میں ہیں۔ مگر جناب! کیا یہ محض کسی کی انا اور کسی کی خوشنودی کا معاملہ ہے؟ ہمیں صہیونیوں سے ہوشیار اور خبردار رہنے کیلئے تو رب کائنات خدا وند کریم نے خود اپنے صحیفہ آسمانی قرآن مجید کے ذریعے حکم دیا ہوا ہے۔ تو کیا ہم احکاماتِ خداوندی سے سرکشی پر آمادہ ہیں اور رب کریم کے مقہور و معتوب ٹھہرائے الیہود کیلئے خوشی کے شادیانے بجانے کا خود ہی اہتمام کر رہے ہیں۔ پھر ہمیں اس سے بھی کیا سروکار ہوگا کہ جب مسلم دنیا یوم القدس منا رہی تھی، اسرائیلی فوج نے مسجد الاقصیٰ میں نمازیوں پر بے دریغ فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا اور مسلمانوں کے قبلہ¿ اول کے صحن میں آگ لگا کر پوری مسجد کو نذر آتش کرنے کی مذموم کوشش کی‘ اس وقت سے اب تک کون سی قیامت ہے جو مسجد اقصیٰ اور غزہ کے دوسرے علاقوں میں نہتے‘ بے گناہ‘ بے یارومددگار فلسطینیوں اور انکے شیرخوار و معصوم بچوں پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے نہ توڑی گئی ہو۔ سوشل میڈیا پر اسرائیلی فوجوں کے ان ننگ انسانیت مظالم کی ویڈیو کلپس دیکھ کر عملاً اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ مسجد کے صحن اور گلیوں بازاروں میں ہر جانب انسانی خون کی ندیاں بہتی نظر آتی ہیں اور اسرائیلی بمباری سے فلسطینیوں کے ادھڑے‘ جلے اور ٹکڑوں میں بٹے بکھرے ہوئے جسم انسانیت کو بھی شرماتے نظر آتے ہیں۔ ظالم اسرائیلی فوجی معصوم بچوں کی گردنوں پر اپنا پورا وزن ڈال کر انہیں بے رحمی کے ساتھ شہید کررہے ہوتے ہیں۔ معصوم بچیوں کو پابند سلاسل کرکے گھسیٹا جاتا ہے۔ سینکڑوں فلسطینی گھرانے اپنے ہی گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں‘ گلیوں‘ بازاروں میں بھوکے پیاسے پڑے تڑپ رہے ہیں تو ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ مسلم دنیا میں کہیں‘ کسی کونے پر کوئی حقیقی تشویش اور غم و غصہ کی لہر نظر آئی؟ کہیں اسرائیل کو اسکے بہیمانہ مظالم پر مسکت جواب دینے اور سبق سکھانے کا مسلم دنیا میں کسی کو خیال آیا؟ مسلم قیادتیں تو بے حمیتی والی بے حسی کی چادر تانے فلسطینیوں پر ٹوٹنے والی قیامت پر محض خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ عرب لیگ بس ایک رسمی مذمتی قرارداد منظور کرکے ”نکرے“ لگ کر بیٹھ جاتی ہے۔ اٹھاون مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی محض مذمت اور تشویش کے اظہار کی رسم نبھاتی ہے۔ حالانکہ او آئی سی کا کوئی ایک بھی رکن ملک ایمانی جذبے کے ساتھ اسرائیل کو جواب دینے کیلئے عملی قدم اٹھائے تو پورے اسرائیل کا ”تورابورا“بنادے مگر:
حمیت نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے
ہماری اس بے عملی کے ماحول میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل بھی بھلا فلسطینیوں کی کمک کو کیونکر آئیگی۔ اسرائیلی مظالم کیخلاف سلامتی کونسل کے کہنے کو تو ہنگامی اجلاس ہوئے‘ مگر امریکہ نے اسکے مشترکہ اعلامیہ کا اجرا¿ہی رکوا دیا۔ سو اس عالمی ادارے نے اپنے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس کے جاری کردہ اس بیان پر ہی اکتفا کیا کہ اسرائیل حالات خراب نہ کرے اور امن قائم کرنے کے اقدامات اٹھائے۔
ارے! ہم کس منہ سے اقوام عالم کو بے حسی اور بے عملی کے طعنے دے سکتے ہیں۔ مسلم دنیا تو خود مصلحتوں اور مفادات کی اسیر بن چکی ہے ورنہ مئی 1948ءمیں معدودے چند یہودیوں کو پورے فلسطین پر ناجائز قابض ہونے اور غالب آنے کی بھلا کیونکر جرات ہو سکتی تھی۔ یہی یہودی جو حضرت نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت کے بعد انکی جانب سے حلقہ¿ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت پر خدا اور اسکے رسولکے باغی ہوئے اور سرکشی اختیار کی جس پر وہ خدا اور اسکے رسول کے نافرمان ٹھہرے اور خالق کائنات نے اپنی آیت نازل فرما کر ان پر عذاب خداوندی نازل ہونے کا حضرت نبی آخری الزمان کے ذریعے پیغام دیا۔ اس وقت مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے بنونادر‘ بنو قریضہ اور بنوقینوقہ آباد تھے جنہیں حضرت نبی کریمﷺ نے دعوت اسلام دی۔ اس سے منکر ہوتے ہوئے انہوں نے خدائے بزرگ و برتر کی بھی نافرمانی کی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نعوذباللہ قتل کی سازشوں میں بھی مصروف ہو گئے چنانچہ انکے لشکر محمدی کے ساتھ کئی معرکے برپا ہوئے‘ ان میں سے دو قبائل جلاوطنی پر مجبور ہوئے اور تیسرے قبیلے قینوقہ کے ایک سنار کے ہاتھوں ایک باپردہ مسلم خاتون کی بے حرمتی پر مسلم لشکروں کے ہاتھوں اس قبیلے کے ایک ایک فرد کے چیتھڑے اڑ گئے اور عرب سرزمین پر یہودیوں کا نام و نشان مٹ گیا۔ بے شک یہ سب کچھ بحکم خداوندی ہوا کیونکہ الیہود خدا کے حضور مقہور معتوب ٹھہرے تھے۔
اگر آج یہی یہودی مسلم دنیا کی پوری طاقت بالخصوص عرب دنیا کے بے پناہ وسائل کے باوجود پورے فلسطین پر غالب ہوتے نظر آرہے ہیں اور قبلہ¿ اول کے نعوذباللہ انہدام کی سازشوں میں مصروف ہیں جن کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں کا حشر نشر ہو رہا ہے تو کیا مسلم دنیا کو بحیثیت مجموعی اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکنا چاہیے؟ اسکے برعکس آج بالخصوص مسلم دنیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سابقہ اسمبلی میں تو پی ٹی آئی کی ایک رکن عاصمہ حدید نے فلور آف دی ہاﺅس پر یہ ہذیان بھی بک دیا تھا کہ جب خداوند کریم نے اپنے نبی کو قبلہ¿ اول کے بجائے خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم صادر فرمایا تو درحقیقت انہوں نے یہ طے کرکے یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین جھگڑا ختم کردیا تھا کہ مسجد اقصیٰ یہودیوں کا کعبہ ہے اور سعودی عرب کا خانہ کعبہ مسلمانوں کیلئے مخصوص ہے۔ اس خاتون رکن اسمبلی نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اپنی نماز کے دوران بھی تو آل ابراہیم سمیت ساری آل پر درود بھیجتے ہیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو بنی اسرائیل سے تھے۔حیف صد حیف کہ اتنی بہتان تراشی پر بھی اسمبلی کے پورے ہاﺅس میں احتجاج اور مذمت کی ایک آواز تک بلند نہ ہوئی۔ اس خاتون نے خود قرآن اور اسلام کا مطالعہ نہیں کیا تھا تو کوئی اسے سمجھا اور بتا دیتا کہ حضرت نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اس لئے ان کا بنی اسرائیل سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ اور حضرت موسیٰؑ کی اولاد یہودیوں پر ہماری نمازوں میں کہاں درود بھیجا جاتا ہے۔ بے شک خدا کے تمام انبیائے کرام کی تعظیم ہمارے ایمان کا حصہ ہے مگر یہودیوں نے تو حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی نبی برحق تسلیم نہیں کیا تھا اور حضرت نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے ہو گئے تھے۔ جس ناخلف قومِ یہود کی نافرمانی کے باعث خود خداوند کریم نے اس کیخلاف جنگ کا حکم دیا‘ آج مسلم دنیا خدا کی نافرمان اسی قوم اور اسکے ناجائز طور پر کھڑے کئے گئے ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دل و جان سے آمادہ ہے۔ تو جناب! پھر ہم پر بھی اس سرکشی پر خدا کا قہر کیوں نہیں ٹوٹے گا۔ اسکی دعوت تو ہم خود دے رہے ہیں۔ اقبال نے اسی لئے تو کہا تھا کہ:
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
خدا ہم پر رحم فرمائے۔
قہرِ خدا وندی کی کھلی دعوت
Sep 27, 2023