اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر وجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد جن اصولوں پر قائم ہے وہ پر امن بقائے باہمی کو فروغ دیتے ہوئے یہاں موجود تمام مذاہب و مسالک سے وابستہ افراد کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں لیکن کچھ شر پسند عناصر ان سنہری اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرے کے تمام طبقات کو اپنی مثبت کوششوں کے ذریعے ان شر پسند عناصر کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا کر دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ پاکستان یہاں بسنے والے تمام لوگوں کی یکساں ملکیت ہے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اس ملک کے طول و عرض میں آباد ہونے والی اقلیتوں سے امن و سلامتی کا جو وعدہ کیا تھا اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اکثریت سے جڑے ہوئے تمام افراد کو آگے بڑھ کر غیر مسلموں کی حفاظت کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں سب سے اہم کردار طاقتور طبقات ادا کرسکتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ہماری مسلح افواج میں اقلیتی افراد کو نہ صرف شمولیت کے لیے یکساں مواقع مہیا کیے جاتے ہیں بلکہ اکثریت سے وابستہ افراد کا تعلق ہمیشہ ہی ان سے مثالی نوعیت کا رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افواجِ پاکستان اس حوالے سے مثبت روایات کی امین ہیں۔ تینوں مسلح افواج میں اقلیتی افراد تاریخ کے مختلف ادوار میں قابلِ قدر خدمات انجام دے چکے ہیں جن کا اعلیٰ سطح پر اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ لاہور میں واقع فوجی عجائب گھر یا آرمی میوزیم میں مسلح افواج سے وابستہ اقلیتی افراد کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک سیکشن بنایا گیا ہے جس میں ان افراد کی خدمات کو اجاگر کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے ان کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان میں آباد اقلیتوں میں تعداد کے اعتبار سے مسیحی برادری سب سے بڑی ہے۔ اس برادری کی پاکستان سے محبت اور اس کے لیے خدمات بھی نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ سوموار کو اسی برادری کے ایک وفد نے چرچ آف پاکستان کے بشپ ڈاکٹر آزاد مارشل کے ہمراہ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر سے راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں ملاقات کی۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ مسیحی برادری کے تیرہ رکنی وفد سے ہونے والی آرمی چیف کی اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ مذہبی اور بین المذاہب ہم آہنگی پر تبادلہ¿ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے قومی ترقی میں پاکستانی کرسچن کمیونٹی کے کردار کو سراہا۔ علاوہ ازیں، تعلیم، صحت اور انسان دوست خدمات کے فروغ اور مادرِ وطن کے دفاع کے لیے ان کی طرف سے ادا کیے گئے شاندار کردار پر انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
جنرل عاصم منیر نے مسیحی برادری کے لیے گہرے احترام کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ متحدہ اور ترقی پسند پاکستان کے قائد کے حقیقی ویژن پر عمل کرنے کے لیے معاشرے میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور اسلام اور معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ سپہ سالار نے مزید کہا کہ مہذب معاشرے میں کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، مسیحی برادری کے وفد نے دہشت گردی سے نمٹنے اور ملک میں اقلیتوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے میں پاک فوج کی کاوشوں کا اعتراف کیا۔ انھوں نے آرمی چیف کے پاکستانی اقلیتوں کے لیے قوم کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ فعال حصہ لینے اور ایک مربوط اور روادار معاشرے میں اپنا اعتماد بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
آرمی چیف نے مسیحی برادری کے وفد سے یہ ملاقات کر کے ایک طرف ملک کا مثبت امیج اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری جانب شر پسند عناصر کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ان کی ملک میں انتشار پھیلانے کی مذموم کوششوں کو خاک میں ملانے کے لیے مسلح افواج قوم کے ساتھ کھڑی ہیں۔ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مسیحی برادری کی عبادت گاہوں اور گھروں کو نشانہ بنا کر پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے جو سازش کی گئی تھی اس کو ناکام بنانے کے لیے بھی ایسی ملاقاتیں بہت ضروری ہیں تاکہ پاکستان کے اندر اور باہر موجود ملک دشمن عناصر کو یہ واضح پیغام دیا جاسکے کہ ہمارا وطن پر امن بقائے باہمی کے ان زریں اصولوں کا امین ہے جو پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آج سے چودہ صدیاں پہلے بیان فرمائے تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اصولوں سے وابستگی ہی پاکستان کی بقا اور تحفظ کی ضامن ہے۔
مسیحی وفد سے آرمی چیف کی ملاقات اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں یقیناً بہت اہمیت کی حامل ہے لیکن معاشرے میں تحمل اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عوام ان مسائل سے نجات دلائی جائے جو ان کے لیے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ ہی سے عوام میں عدم برداشت پھیل رہی ہے جو بہت سے دیگر مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ ملک کو انتشار اور خانہ جنگی سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے اداروں کے چنگل سے نکلا جائے اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی اربوں ڈالر کی مراعات و سہولیات کو ختم کر کے یہ رقم عوام اور ملک کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے تاکہ عوام اور ملک کو خوشحال بنا کر ہم دنیا میں ایک باوقار قوم کے طور پر سر اونچا کر کے کھڑے ہوسکیں۔