آرمی چیف کا پیغام، نئی سیاسی جماعت اور میاں نواز شریف!!!!!!

ملک دشمن طاقتیں پاکستان میں مذہبی انتشار، منافرت اور انتہا پسندی کے ذریعے بدامنی پھیلانے اور بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ پاکستان دشمنوں کا یہ طریقہ واردات کچھ نیا نہیں ہے۔ ہر دور میں ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں اور ان وارداتوں کا توڑ بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم مذہبی حوالے سے سخت سوچ سے باہر نہیں نکل سکے اور دشمن ہماری اس سوچ کا فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ اس حوالے سے تمام مسالک کے علماءکو مل بیٹھ کر اتحاد اور اتفاق کا درس دینا چاہیے۔ میں نے ہمیشہ لکھا ہے کہ مسلکی اختلافات کو کم کرنے اور اس حوالے سے برداشت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی معاملات میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر سختی لازم ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان ان معاملات پر سختی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور شدت سے غصے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ وہ معاملات ہیں جن کا تعلق براہ راست مغرب سے ہے۔ ان کا دہرانا یہاں مناسب نہیں ہے لیکن مسلمانوں کا ایسے معاملات میں ردعمل فطری اور جائز ہے۔ مغرب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے اس کا جواب آتا ہے۔ ان خاص معاملات سے ہٹ کر پاکستان میں مسلمانوں کو مذہبی اعتبار سے برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور موجودہ حالات میں اس کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ دشمن ہر وقت تاک میں رہتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعات کے پیچھے بھی یہی عناصر ہیں۔ گذشتہ دنوں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں بیرونی ہاتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے معصوم اور سادہ لوح لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیں ان حالات میں زیادہ ذمہ دار اور محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ علماءان معاملات میں سب سے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں یہ تاثر بہرحال غلط ہے کہ یہاں مذہبی شدت پسندی ہے۔ ایسی چیزیں دنیا میں جگہ نظر آتی ہیں۔ اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے کہ "اسلام اور معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ماڈریٹر اور صدر بشپس چرچ آف پاکستان ڈاکٹر آزاد مارشل کی سربراہی میں مسیحی برادری کے وفد نے ملاقات کی۔ ملاقات میں آرمی چیف نے ملکی ترقی میں مسیحی برادری کی خدمات کو سراہا جب کہ اس موقع پر مسیحی برادری نے انسداد دہشتگردی اور اقلیتوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے میں پاک فوج کی کاوشوں کی تعریف کی۔ مسیحی برادری کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ قائداعظم کا وڑن تھا کہ ملک متحد ہو اور ترقی کرے۔ اسلام امن کا مذہب ہے اور مہذب معاشرے میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"
آرمی چیف کی مسیحی برادری سے ملاقات پاکستان میں مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے لیے واضح پیغام ہے۔ ہزاروں قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا امن برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کا ہر شہری دشمنوں کے راستے کی دیوار ہے۔ اب کسی دشمن کو پاکستان کے امن کو خراب کرنے ہی اجازت نہیں دی جائے گی۔
 نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے ایک بیان نے مسلم لیگ کے بڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ خیر وضاحت تو نگراں وزیر داخلہ خود بھی دے چکے لیکن جو بات وہ کہنا چاہتے تھے وہ کہہ چکے ہیں اب چاہے وضاحت دیں یا نہ دیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ "نوازشریف کو عدالت سے ضمانت نہ ملی تو گرفتار کریں گے، میرے خیال میں نواز شریف خود بھی گرفتار ہونا ہی چاہیں گے، ایک ملزم کو جہاز سے گرفتار کرنے کیلئے کوئی بڑی فورس نہیں چاہیے ہوتی۔" اب اس میں کوئی ایسی بات نہیں کہ مریم اورنگزیب یا رانا ثنااللہ یا کوئی اور نگراں وزیر داخلہ پر برہم ہوتے رہیں۔ اگر میاں نواز شریف پر مقدمات ہیں، عدالت ان کی منتظر ہے تو پھر گرفتاری کی بات کرنا کوئی حد سے تجاوز تو ہرگز نہیں۔ عمران خان بھی ان دنوں جیل میں ہیں اور اگر میاں نواز شریف، آصف علی زرداری یا میاں شہباز شریف یا کوئی اور جو بھی ہو قانون سے بالاتر تو نہیں ہے۔ اگر قانون کہتا ہے کہ گرفتار ہونا چاہیے تو انہیں خود گرفتاری دے دینی چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا ثنااللہ نے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے بیان کو ’حد سے تجاوز‘ قراردیتے ہوئے کہا کہ بیان دینے سے پہلے سابق وزیرداخلہ شیخ رشید کا انجام دیکھ لیں، نواز شریف کے خلاف سازش کا خمیازہ عوام اور ملک نے بھگتا ہے، نواز شریف کے خلاف جھوٹے کیس بنا کر ملک اور عوام کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ 
رانا صاحب عوام نے تو آپ کو ووٹ دے کر بھی مشکلات ہی دیکھی ہیں۔ غریبوں کا تو آپکی حکومت میں بھی کوئی حال نہیں تھا۔ آپ کی حکومت نے بھی ملک کے بنیادی مسائل کو حل کرنے، اداروں کو مضبوط اور منافع بخش بنانے کے بجائے وہ کام کیے جن سے کسی اور کو فائدہ پہنچتا رہا۔ آج یہ کہہ رہے ہیں کہ جب مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں تو ملک کو نقصان ہوا ہے۔ آخر میں لگ بھگ ڈیڑھ سال تو یہ بھی حکومت کر گئے ہیں۔ جب درجنوں بلز بغیر دیکھے اور پڑھے منظور ہوتے رہے اس وقت میاں شہباز شریف وزیراعظم تھے۔ یہاں لکھنے بیٹھیں گے تو بات دور تک نکل جائے گی اس لیے بہتر یہی ہے کہ حد سے تجاوز کا شور مچانے کے بجائے اپنی وارداتوں کا جائزہ لیں۔ ملک کے تمام اداروں کا بیڑہ غرق سیاسی حکومتوں نے کیا ہے اور حکومتوں میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف بھی شامل ہیں۔ اگر انہوں نے اچھی حکومت کی ہوتی تو شاہد خاقان عباسی کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ
 "مسلم لیگ ن کی سیاست سے مطمئن نہیں ہوں، راستے کا تعین کریں پھر الیکشن میں جائیں ورنہ الیکشن انتشار کے علاوہ کچھ نہیں دے گا، پارٹی کا عہدیدار نہیں ہوں کسی مشاورت میں شامل نہیں ہوں ، نواز شریف وزیراعظم بنے تو میں خود کو وزیر نہیں دیکھتا اگر جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ آپ کی حکومت میں رکاوٹ تھے تو حکومت چھوڑ دیتے، اس کے بعد بھی آپ کو آٹھ سے نو مہینے ملے کام کر لیتے۔ آپ اتنے وقت میں بہت فیصلے کر سکتے تھے اور کارکردگی بہتر ہو سکتی تھی۔پچھلی حکومت نے بھی ساڑھے تین سال فیصلےنہیں کیے آپ کرلیتے آپ نے بھی نہیں کیے، شہباز حکومت میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور رفتار نظر نہیں آئی جو ہونی چاہیے تھی۔ آج نئی جماعت کی ضرورت بھی ہے اور اس حوالے سے جگہ بھی موجود ہے۔"
رانا ثنااللہ اور ان کے ساتھیوں کو یہ خبر ہو کہ اصل معاملہ کارکردگی کا ہے۔ ملک کی بہتری کے لیے شخصیت پرستی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے مختلف وقتوں میں حکومتوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی اور میاں نواز شریف ان میں شامل ہیں۔ نئے شہروں کو آباد کرنے، اداروں کی تنظیم نو اور اصلاحات کا معاملہ ہو، توانائی بحران سے نمٹنے اور توانائی کے متبادل اور سستے ذرائع کا معاملہ ہو، امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی ہو، زرعی میدان کی ترقی ہو کسی بھی معاملے میں ایسا کام نہیں کیا گیا کہ ہم اپنے پاو¿ں پر کھڑے ہوتے یہی وجہ ہے کہ آج ملکی معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔
 ہم قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور دبتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں کسی کی بھی گرفتاری کے بیان کو حدود سے تجاوز کہنا مناسب نہیں ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے پاکستان تحریک انصاف والے عمران خان کو ریڈ لائن قرار دیتے تھے ہمیں شخصیت پرستی کی اس سوچ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں احمد حاطب صدیقی کا کلام
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
اور امی نے سمجھائی نہیں
میں کیسے میٹھی بات کروں
جب میں نے مٹھائی کھائی نہیں
آپی بھی پکاتی ہیں حلوہ
پھر وہ بھی کیوں حلوائی نہیں
 یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
نانی کے میاں تو نانا ہیں
دادی کے میاں بھی دادا ہیں
جب آپا سے میں نے یہ پوچھا
باجی کے میاں کیا باجا ہیں
وہ ہنس ہنس کر یہ کہنے لگیں
اے بھائی نہیں اے بھائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
جب نیا مہینہ آتا ہے تو
بجلی کا بل آ جاتا ہے
حالانکہ  بادل  بیچارہ
یہ بجلی مفت بناتا ہے
پھر ہم نے اپنے گھر بجلی
بادل سے کیوں لگوائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
گر بلی شیر کی خالہ ہے
تو ہم نے اسے کیوں پالا ہے
کیا شیر بہت نا لائق ہے
خالہ کو مار نکالا ہے
یا جنگل کے راجا کے ہاں
کیا ملتی دودھ ملائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
کیوں لمبے۔ بال ہیں بھالو کے
کیوں اس کی ٹنڈ کرائی نہیں
کیا وہ بھی گندہ بچہ ہے
یا اس کے ابو بھائی نہیں
یہ اس کا ہیر اسٹائل ہے
یا جنگل میں کوئی نائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
جو تارے جھلمل کرتے ہیں
کیا ان کی چچی تائی نہیں
ہوگا کوئی رشتہ سورج سے
یہ بات ہمیں بتلائی نہیں
یہ چندا کیسا ماما ہے
جب امی کا وہ بھائی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں

ای پیپر دی نیشن