نہر پانامہ
فضل حسین اعوان
مختلف سطحوں کے دو سمندر پاناما نہر کے ذریعے مربوط
نہر سویز سے بھی بڑا اور کامل پراجیکٹ
پندرہ ہزار کلومیٹر سفر بھی سمٹ گیا
نہر سوئز مصر کی ایک سمندری گذرگاہ ہے جو بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے۔ اس کے بحیرہ روم کے کنارے پر پورٹ سعید اور بحیرہ قلزم کے کنارے پر سوئز شہر موجود ہے۔ یہ نہر 163 کلومیٹرطویل اور 300 میٹر چوڑی ہے۔اس نہر کی بدولت بحری جہاز افریقا کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان آمدورفت کرسکتے ہیں۔ 1869ئ میں نہر کی تعمیر سے قبل اس علاقے سے بحری جہاز ایک جانب سامان اتارتے تھے اور بحیرہ قلزم تک اسے بذریعہ سڑک لے جایا جاتا تھا۔ 1869ءمیں اس نہر کے ک±ھل جانے سے انگلینڈ سے ہندوستان کا بحری فاصلہ نہ صرف 4000 میل گھٹ گیا بلکہ مون سون پر انحصار بھی کم ہو گیا۔پہلے اس نہر پر برطانیہ، امریکا اور فرانس کا قبضہ تھا مگر جمال عبد الناصر نے اس نہر کو قومی ملکیت میں لے لیا جس پر برطانیہ، امریکا اور اسرائیل نے مصر سے جنگ چھیڑ دی تھی۔
سوئز واحد راستہ نہیں ہے جو دنیا کے سمندروں کو آپس میں ملا کر بحری جہازوں کے لیے وقت اور ایندھن کی بچت ممکن بناتا ہے، بلکہ وسطی امریکہ میں نہر پانامہ بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس کو آپس میں ملاتی ہے۔نہرِ پانامہ سے عالمی تجارت کا پانچ سے چھ فیصد ہر سال گزرتا ہے۔ یہ نہر اتنی اہمیت کے حامل تجارتی راستے پر واقع ہے کہ تجارتی بحری جہازوں کو بناتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ جہاز کا سائز اتنا ہی ہو کہ وہ نہرِ پانامہ سے گزر سکے۔
انجینئرنگ کی شاہکار اس نہر کو جدید دنیا کے عجائبات میں سے بھی قرار دیا جاتا ہے۔اس نہر کی تعمیر سے قبل بحری جہازوں کو امریکہ کے مغربی یا مشرقی کنارے سے دوسری جانب جانے کے لیے برِ اعظم جنوبی امریکہ کے آخری کونے کیپ ہارن سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ مگر اب نہرِ پانامہ کی وجہ سے یہ سفر آٹھ ہزار ناٹیکل میل یا 15 ہزار کلومیٹر کم ہو گیا ہے۔(ایک ناٹیکل میل 1.852 کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے)۔
اسی طرح شمالی امریکہ کے ایک کنارے سے جنوبی امریکہ کی کسی بندرگاہ تک جانے میں بھی ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر جبکہ یورپ اور مشرقی ایشیا یا آسٹریلیا کے درمیان چلنے والے بحری جہاز بھی تین ہزار 700 کلومیٹر تک کی بچت کر سکتے ہیں۔
اس پورے سفر میں دو سے تین ہفتے تک کا وقت درکار ہوتا تھا تاہم اب نہرِ پانامہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صرف 10 گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نہرِ سوئز بھی تو دو سمندروں کو آپس میں ملاتی ہے تو پھر نہرِ پانامہ کی اتنی تعریف کیوں؟ جواب یہ ہے کہ نہرِ سوئز جن دو سمندروں کو آپس میں ملاتی ہے ا±ن میں پانی کی سطح تقریباً برابر ہے، اس لیے یہاں سے گزرنے کے لیے بحری جہازوں کو صرف اس میں داخل ہونا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ نہرِ سوئز کی چوڑائی 205 سے لے کر 225 میٹر تک ہے مگر نہرِ پانامہ کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔اس کی تعمیر کے لیے مطلوبہ کھدائی کو کم رکھنے کے لیے ایک مصنوعی جھیل بنائی گئی ہے جو سطحِ سمندر سے 85 فٹ بلند ہے۔
جب بھی کوئی بحری جہاز نہرِ پانامہ کو پار کرنا چاہتا ہے تو یہ سب سے پہلے لاک کہلانے والے ایک چیمبر میں داخل ہوتا ہے۔ پھر اس چیمبر میں پانی کی مقدار بڑھنے لگتی ہے یہاں تک کہ یہ اپنے سے زیادہ بلندی پر موجود دوسرے چیمبر کے برابر پہنچ جاتا ہے۔ اس موقع پر جہاز کے لیے دوسرے چیمبر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور یہ اگلے چیمبر میں داخل ہو جاتا ہے۔اس کے بعد اگلے چیمبر میں پانی کی مقدار بڑھنے لگتی ہے اور پھر یہ بحری جہاز 85 فٹ بلند گتون جھیل میں داخل ہو جاتا ہے۔
اس وقت یہ جہاز اس جھیل کو پار کرتا ہے اور دوسری جانب موجود لاکس تک پہنچتا ہے جہاں اسے چیمبر میں داخل کر کے پانی کی مقدار گھٹائی جاتی ہے۔تین مرحلوں پر مشتمل اس اترائی کے عمل سے گزرنے کے بعد جہاز دوسری جانب موجود سمندر کی سطح کے برابر پہنچ جاتا ہے۔
فرانس کا پانامہ سکینڈل
1881 ءمیں فرانسیسی سفارتکار فرڈینینڈ ڈی لیسی پیس نے اس نہر کی تیاری پر کام شروع کیا۔ یہ وہی شخص تھے جنھوں نے نہرِ سوئز کے منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا تھا جسے 1869 میں کھولا گیا۔چنانچہ ان سے لوگوں کی بڑی ا±میدیں وابستہ تھیں اور لاکھوں لوگوں نے اس پر سرمایہ کاری کی۔نالوں اور جھیل کے موجودہ ڈیزائن کا ہوبہو ایک ڈیزائن اس وقت بھی پیش کیا گیا تھا مگر اسے مسترد کر دیا گیا تھا۔فرڈینینڈ نے نہرِ سوئز کی طرز پر ہی یہ نہر بنانے کی کوشش کی مگر یہی وہ تاریخی غلطی تھی جس کی وجہ سے فرانس یہ اعزاز اپنے نام نہیں کر سکا۔
وسطی امریکہ کے جنگلات، دریاو¿ں اور پہاڑوں سے اس نہر کی کھدائی اتنا آسان کام نہیں تھا۔کچھ ہی سال بعد 1889 میں فرانس کو اس پر کام بند کرنا پڑا کیونکہ ہر ماہ 200 کے قریب کارکن زرد بخار اور ملیریا جیسی بیماریوں اور حادثات میں ہلاک ہو رہے تھے جبکہ بے پناہ اخراجات کے باوجود یہ منصوبہ مکمل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔جب اس پر کام بند کیا گیا تو فرڈینینڈ کو فنڈز میں خورد برد کے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اس کے بعد اس پر ایک اور فرانسیسی کمپنی کچھ کچھ کام کرتی رہی یہاں تک کہ 1904 میں امریکہ نے یہاں موجود سامان خرید کر اس منصوبے کو اپنا لیا۔ فرانس کو اس میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ اس منصوبے کو امریکہ کے لیے بطور عالمی طاقت بہت اہم تصور کرتے تھے چنانچہ ا±نھوں نے کانگریس پر بہت دباو¿ ڈالا کہ وہ فرانس سے اس منصوبے کے حقوق خرید لے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان ہے اور کولمبیا کے ناظم الامور ٹامس ہیرن کے درمیان نہرِ پانامہ کی زمین امریکہ کو لیز پر دیے جانے کے لیے معاہدہ طے پایا تاہم کولمبیا کی پارلیمان سے اسے منظوری نہ مل سکی۔پانامہ اس وقت کولمبیا کا حصہ تھا اور وہاں لوگوں میں علیٰحدگی پسند جذبات موجود تھے۔
چنانچہ امریکہ نے ان کا استعمال کرتے ہوئے پانامہ کی آزادی کی حمایت کی، باغیوں کی مدد کی اور پانامہ کو خود مختار ملک تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔
اس کے بعد امریکہ اور پانامہ کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اور امریکہ نے اس پر کام شروع کر دیا۔ امریکہ نے اسے 1999 میں پانامہ کے حوالے کیا اور اب یہ نہر واپس پانامہ کے زیرِ انتظام ہے۔چنانچہ نہرِ پانامہ صرف انجینیئرنگ کا ہی نہیں بلکہ سیاسی پالیسیوں کا شاہکار بھی کہی جا سکتی ہے۔اس کے لاکس کی تیاری میں چار سال کا عرصہ لگا اور انسانی تاریخ میں تب تک اس سے زیادہ کنکریٹ کسی بھی منصوبے میں استعمال نہیں ہوا تھا۔سات جنوری 1914 وہ دن تھا جب پہلی مرتبہ کسی بحری جہاز نے نہرِ پانامہ کو عبور کیا۔
ویسے تو منصوبہ یہ تھا کہ 15 اگست 1914 کو نہرِ پانامہ کے باضابطہ افتتاح کے موقع پر ایک بہت بڑا جشن منایا جائے گا مگر پہلی عالمی جنگ کے آغاز کی وجہ سے یہ جشن منعقد نہ ہو سکا اور ایک چھوٹے سے بحری جہاز ’اینکون‘ کو گزار کر اس کا افتتاح کیا گیا۔نہرِ پانامہ کی تعمیر میں 25 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں جن میں سے 22 ہزار کے قریب افراد فرانسیسی دورِ تعمیر میں ہلاک ہوئے۔
نہرِ پانامہ عالمی تجارت کے لیے کتنی اہم ہے؟
مالی سال 2020 میں نہرِ پانامہ کو چھوٹے بڑے 13 ہزار 369 جہازوں اور کشتیوں نے عبور کیا جس میں سے 12 ہزار 245 وہ تجارتی جہاز تھے جو ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک جا رہے تھے۔اس پورے سال میں نہرِ پانامہ کو ٹول ٹیکس کی مد میں 2.67 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔پاناما کینال اتھارٹی کے ایڈمنسٹریٹر ریکار ٹے وسکاز کا کہنا ہے کہ رواں سال اکتوبر 2023 سے 2024 تک 15 ارب ڈالر کا بزنس ہوا اس میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر منافع ہوا جبکہ گزشتہ سال یہ بزنس 14 اعشاریہ نو ارب ڈالر کا ہوا تھا۔
نہرِ پانامہ کے ذریعے ہر طرح کے سامان کی آمد و رفت ہوتی ہے تاہم اجناس، کوئلہ، خوردنی تیل، کیمیکلز، زرعی پیداوار اور معدنیات سرِفہرست ہیں۔امریکہ دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک اور چین دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے، اس لیے یہ دونوں ممالک سامان کی ترسیل کے اعتبار سے سرِفہرست ہیں۔
نہرِ پانامہ کی بقا کا انحصار تازہ پانی کی مسلسل فراہمی پر ہے مگر گزشتہ چند برسوں میں بارشوں میں ہونے والی کمی کے باعث اس نہر کا آپریشن متاثر بھی ہوا ہے۔
جب بھی کوئی جہاز یہاں سے گزرتا ہے تو لاکھوں گیلن میٹھا پانی سمندر میں گر جاتا ہے جس کی وجہ سے گتون جھیل میں پانی کی سطح کا برقرار رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔تاہم اب حکام اس مسئلے کے حل تلاش کرنے پر کام کر رہے ہیں جس میں یہاں سے گزرنے والے جہازوں کی تعداد کو کم کرنا بھی شامل ہے۔
مگر اس کا تجارتی نقصان یہ ہے کہ پھر کاروبار نہرِ سوئز کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔لیکن اس کے باوجود نہرِ پانامہ کا جغرافیائی محلِ وقوع ایسا ہے کہ ہر سال ہزاروں بحری جہازوں کے لیے سب سے کارآمد بحری تجارتی راستہ یہی رہے گا۔بلاشبہ یہ جدید دنیا کے نئے عجائبات میں سے ایک ہے۔