تاریخ کے نئے اور پرانے زخم 

Sep 27, 2024

شاہ نواز سیال

شا ہ نواز سیال 

نریندر مودی کے متعصبانہ رویے نے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دی ہیں ایک مرتبہ پھر بھارت کو ماضی کے تلخ دور کی طرف دھکیل دیا ہے جو انسانی زندگی کے لیے کربناک ثابت ہوا تھا ثابت قدم لوگ ڈر اور خوف کا شکار ہوگئے تھے انسانی زندگی پر شب خون مار گیا تھا کئی ریاستوں کے لوگوں کے زبردستی حقوق چھینے گئے تھے ان ریاستوں میں حیدرآباد دکن ،جونا گڑھ اور جموں و کشمیر شامل ہیں -
بھارتی انتہا پسند جماعت بی جے پی دس سال سے اقتدار میں ہے مگر جنوبی ہند کی ریاستوں میں آج تک اپنی گرفت مضبوط نہیں کرسکی تلنگانہ ہو آندھرا پردیش ہو یا کرناٹک آج بھی وہاں لیبرل جماعتوں کے اتحاد سے حکومتیں قائم ہیں مگر مودی کا مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویہ روزبروز بڑھتا جارہا ہے مساجد کی جگہ مندروں کا قیام جس کی واضح مثال بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہے اب بات صرف مذہبی جذبات تک محدود نہیں رہی بلکہ ماضی کی یاداشتوں میں پڑے ہوئے مظالم نئے زخموں کی طرح اذیت دینا شروع ہوگئے ہیں قارئین آج آپ کی توجہ ان مظلوم ریاستوں کی طرف کراتے ہیں جہاں بھارت نے طاقت کا استعمال کر کے انسانی جذبات مجروح کیے تھے -
 17 ستمبر 1948 ئکو بھارت نے ریاست حیدرآباد دکن پر فوج اور پولیس کے ذریعے طاقت کا استعمال کرکے قبضہ کیا تھا ورنہ حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ قبضہ ہندوستانی فوج نے کیا جسے اپریشن پولو کہا جاتا ہے جو جنرل چودھری کی قیادت میں کیا گیا۔ اس اپریشن کی یاد میں بھارتی انتہا پسند جماعت بی جے پی نے اس دن کو حیدرآباد لبریشن ڈے کے طور پر منانا شروع کیا (بی جے پی جان بوجھ کر 17 ستمبر کو حیدرآبادکی آزادی کا دن مناتی ہے) جبکہ لیبرل جماعت کانگریس کی زیرقیادت حکومت تلنگانہ نے اسے جمہوریت ڈے کے طور پر منایا۔ بی جے پی قیادت اور وفاقی وزیر کشن ریڈی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے حیدرآباد لبریشن ڈے نہ منانا ا±ن لوگوں کی توہین ہے جنھوں نے حیدرآباددکن کو فتح کرنے کے دوران میں اپنی زندگیوں کی قربانیاں دیں ہیں-
بہرحال دوسرے ایسے بھی لوگ ہیں جو اسے نہرو اور پٹیل کا اسلام فوبیا قرار دیتے ہیں جو ہندوستان نے ایک مسلم ریاست کو طاقت کے ذریعے ضم کیا۔ ان میں اکثر دلائل یکطرفہ یا متعصبانہ ہیں۔ کیا ایک ریاست جس کی حکمرانی ایک مسلم بادشاہ کرتا ہو ایک مسلم اسٹیٹ (حیدرآباد) کہلاسکتی ہے؟ جس کی آبادی کی اکثریت ہندو تھی؟۔ کیا ایک مسلم اکثریتی ریاست جس کا راجہ ہندو ہو (کشمیر) اسے ایک ہندو ریاست کہا جاسکتا ہے؟ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ بعض دانشور اسے مذہب کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ حقیقت میں ایک طرف اہم عنصر یا پہلو جغرافیائی ہے اور دوسری طرف یہ زمیندارانہ و جاگیردارانہ نظام سے جمہوریت کی طرف منتقلی بھی ہے۔
 کشمیر میں اس میں سے کتنا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے یہ مشکوک ہے کیونکہ اس خطے کے عوامل یہ تھے کہ لوگ پاکستان سے متاثر تھے۔ پاکستان اسے حقیقت میں ایک مسلم ریاست بنانا چاہتا تھا اور مسلم اکثریتی کشمیر کو جناح کے دو قومی نظریہ کے مطابق پاکستان میں ضم ہوتے دیکھنے کا خواہاں تھا اور جبکہ کشمیری عوام اور قیادت کی بھی یہی خواہش تھی -
 سوال یہ ہے کہ پھر نہرو نے کشمیر کو ہندوستان میں ضم یا الحاق سے دلچسپی کیوں لی؟ کیا یہ محض جغرافیائی توسیع پسندی تھی؟ کیا جاگیردارانہ بادشاہت کے خلاف جمہوری تحریک کی تائید و حمایت تھی؟ اور کیسے جاگیردارانہ نظام و بادشاہت کا ر±خ جمہوریت کی جانب موڑا جائے؟۔ 
آپ کی اطلاع کے لئے یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شیخ عبداللہ نے دباو¿ میں آکر اپنے تمام جمہوری عزائم کے ساتھ مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا اور سیکولر اقدار کے حق میں اور اس کے تحفظ میں پوری قوت کے ساتھ کھڑے رہے۔ انھوں نے گاندھی اور نہرو کی طرف سیکولر اور جمہوری اقدار کیلئے دیکھا لیکن مسئلہ اس وقت سنگین ر±خ اختیار کرگیا اور صورتحال ا±س وقت خراب ہوئی جب بھارت نے کشمیریوں کی آواز کو کشمیری قبائل کا حملہ قرار دیا حالانکہ وہ مداخلت مقامی افراد کی طرف سے کی گئی تھی -
اس کے بعد خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کا مسئلہ آتا ہے بادشاہوں اور کئی دوسروں نے بادشاہوں کے مذہب کے ذریعے سلطنتوں پر لیبل چسپاں کئے گیے جبکہ ہندوستانی قوم پرستوں کا خیال تھا کہ خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ و حاکمیت عوام کی ہےبادشاہوں کی نہیں۔ اس پس منظر میں حیدرا?باد کو طاقت کے ذریعے ہندوستان میں انضمام کے پیچیدہ مسئلہ کو دیکھنا ہوگا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ جیسے ہی ہندوستان نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی 600 سے زائد دیسی یا نوابی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ یا تو پاکستان یا پھر ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں یا آزاد رہیں۔ ایسی سلطنتیں اور دیسی ریاستیں جنھیں انگریز سامراج کے دور میں کچھ خود مختاری حاصل تھی- ایک عجیب قسم کی صورتحال باالفاظ دیگر ایک مخمصے کا سامنا کررہی تھیں لیکن ان ریاستوں میں سے اکثر پاکستان میں اور نہ ہی ہندوستان میں ضم ہونے کی خواہاں تھیں بلکہ وہ آزاد رہنا چاہتی تھیں۔ انھیں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے مشورہ دیا تھا کہ اپنی مرضی کے ساتھ کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق کرلیں۔ چونکہ سردار پٹیل بہت زیادہ مداخلت کر رہے تھے - چنانچہ انھوں نے دیسی ریاستوں کو صرف دفاع، مواصلات اور خارجی ا±مور چھوڑ کر دوسرے معاملات میں نوابوں اور راجوں کو خود مختاری دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے عوض انھیں اپنی بڑی جائیدادیں اور بڑے پیمانے پر اپنی دولت رکھنے کا حق دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ تر شاہی ریاستیں ہندوستان میں ضم ہوگئیں۔ ٹراو¿نکور جس پر ایک ہندو راجہ کی حکمرانی تھی، کافی ہچکچاہٹ کے بعد ہندوستان کا حصہ بننے سے اتفاق کیا۔
شروع میں کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان میں ضم ہونے سے انکار کردیاتھا۔ ساتھ ہی حیدرا?باد کے نظام نے ہندوستان کے ساتھ الحاق سے اتفاق نہیں کیا۔ جیسا کہ سطور بالا میں اشارہ دیا گیا کہ ہندوستانی قائدین یہ سمجھتے تھے کہ حاکمیت عوام کی ہے بادشاہوں کی نہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے اکثر بادشاہ راجے تاج برطانیہ کے وفادار تھے اور پرتعیش زندگیاں گزار رہے تھے۔ 
ا?پ کو بتادیں کہ جونا گڑھ کو فوجی کارروائی کے ذریعہ ہندوستان میں ضم کیا گیا اور اس کے بعد نام نہاد منعقد کئے گئے استصواب عامہ میں ہندوستان کے ساتھ اس کے الحاق کی توثیق کی گئی۔ (اس میں بھی زیادہ تر دروغ گوئی سے کام لیا گیا) ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نظام مخالف جدوجہد کو کچھ مقامی لوگوں اور پورے ملک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل تھی۔ وہی ذریعہ ہمیں بتاتا ہے کہ پٹیل نے بڑی مسرت کے ساتھ حیدرا?باد کے سوال پر سہروردی کو غلط بیانی کی کہ حیدرآبادکے سوال پر انڈین یونین کے مسلمان ہماری طرف کھل کر سامنے آئے ہیں اور اس نے یقینا ملک میں اچھا تاثر پیدا کیا۔ اسی پس منظر میں فوجی کارروائی شروع کی گئی جس میں سندر لال رپورٹ کے مطابق تقریباً 40 ہزار جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔
آج بھی یہی صورت حال ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر ، ریاست منی پور اور اسام سمیت طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے دنیا بھرکی کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے -

مزیدخبریں