طاہر بھلر
قارئین آپ روز انہ ریٹائرئڈ حصرات کے بارے میں کچھ اس طرح کے حکومتی بیان پڑھ کر ضرور حیران ہوں گے کہ جیسے حکومت کو پنشنرز کی پنشن کی بندش یا کمی کرنے کی شکل میں کر کے گویا قارون کا خرزانہ مل جائے گا یا جیسے ہمارے قومی بجٹ کو بیچارے بزرگ پنشنرز کھا گیے ہوں، آج کل پنشنرز کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے ۔ مثال کے طور پرروزانہ کی بنیاد پر چینلز پر پٹیاں چل رہی ہیں کہ حکومت سندھ نے فیصلہ کیا ہے کہ انیس سو تہتر کے تحت پنشن بند کی جا رہی ہے اور قارئین یہ تمام خبریں اعلانات آئی پی پی کو غیر ضروری ادائیگیوں کے حوالے ، آی ایم ایف کے دباو کے پس منظر میں دی جارہی ہیں۔کبھی فیملی پنشن کو دس سال تک محدود کرنے کا مثردہ سنایا جاتا ہے گویا مہنگای کے دور میں پنشنرز کو ایک ڈراونی خبر کا سامنا ہے۔ فوج کے ریٹائرڈ خضرات کے بارے میں سننے میں آ رہا ہے کہ ان کی پنشن پچاس فیصد بڑھائی گئی ہے جبکہ ہم عام شہری کیا آسمان سے گرے ہیں یا اتنے بے آسرا ہیں یا بوجھ ہیں کہ حکومت ہمیں ہی تنقید کی نشانہ بنا رہی ہے جبکہ فوجی بھائی اگرچہ ہمارے ملک کے اسی طرح شہری ہیں جیسے تمام دوسرے تو ایک سوال ذہنوں میں پیدا ہونا قابل گرفت نہیں ہوناچاہیے یا جرم گردن زدی نہ سمجھا جائے کہ گویا انکو ترجیحی پنشنرز قرار دیتے ہوئے عام شہریوں سے زیادہ یعنی پچاس فیصد اضافہ سے نوازا جا رہا ہے۔ گویا وہ انکے حقیقی بچے ہوں اور عام شہری پنشنرز گویا سوتیلے بچے ہوں ۔ اگر اصول کی بات کریں تو پنشن سب کی برابر بڑھنی چاہے ، کسی کی پنشن میں کم یا زیادہ اضافہ ہنگامی حالات میں حکومت اپنے صوابدیدی اختیارات مخصوص مدت کے لئے کم یا زیاد ہ کے کہہ سکتی ہے یا اس کو سپریم کورٹ سے اس کی اجازت لینی چاہئے ۔ یاد رہے سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق پنشن ہر پنشنر کو ان کی خدمات کا معاوضہ ہے نہ کہ چیریٹی یا صدقہ یا خیرات ہے۔ یہ ریٹائرڈ ملازمین کا ان کا قانونی استحقاق ہے جو کہ تمام دنیا میں ان کو باعزت طریقے سے ان کے گھروں میں پہنچایا جاتا ہے۔ ابھی تک یا ماضی قریب میں جن میں آج کے علاقہ پاکستانیوں نے دوسری جنگ عظیم میں حکومت برطانیہ کے لئے برما یا دوسرے محازوں پر خدمات انجام دی تھیں ، سلطنت برطانیہ ان کو تاحیات پنشن انکے گھروں میں پہنچاتی رہی ہے ۔ یہ اعتراف ہے ان کی خدمات کا، نہ کی ہمارے حکومتی بزرجمہوں کاکہ کبھی کوئی صوبہ کچھ اعلان کر رہا ہے ، تو دوسرے دن آی ایم ایف کے دباو پر ، برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر ، پنشنرز کو زیر بحث لایا جاتا ہے ، بھئی، اہل اقتدار آپ بھی اپنے دورے کم کر لو ، اپنی مراعات پر کچھ کمی قبول کر لو ، نئے محکمے کھولنے سے پہلے پرانے محکموں کو کم کر لو، کرپشن کرپشن ، ہائے ہائے کار مچی ہے ، اس کو ہی کم کر لو ان نئے سفید محکموں، گوسٹ محکموں یا بھرتیوں کی خبر لے لو نئی بھرتیوں کو تو ایڈہاک سے نکال کر میرٹ پر لانے کے لئے کچھ کرو ،کب تک اسحاق ڈار جس نے اپنے تمام واجبات جب وہ بیرون ملک تھا آتے ہی وصول کر لئے، ہجویری دفتر بحال ہوے لیکن وہ نناوے فیصد بزرگ پنشنرز کو نظر انداز کرتے ہوے بجٹ کا بوجھ پنشنرز پر ڈال کر اپنے آپ کو اپنی حاصل کردہ مرراعات سمیت، بیرونی قرضوں کے نیچے قوم کا سر دے کر اب کہاں بیٹھے ہیں،عوام نے یہ قرض اپنے تیئں تو نہیں لئے تھے ۔ خدا را عقل کے ناخن لیں جس کا جتنا بنتا ہے اس کو دیں ۔ ہم ریٹارڈ لوگوں کا کوئی سیاسی مقصد نہ تھا ، نہ ہے اور نہ ہو گا۔اپنی کارکردگی بہتر کرو ، ذرا اپنے ٹی ای ڈے اے کم کرو چہ جائکہ بزرگ پنشنرنوں کی پنشنیں کم کرنے کے کہ فوجی حضرات کی پنشن میں پندرہ کی بجائے پچاس فیصد اضافہ کر دو۔ ایک ہی ملک میں دو قانون کیوں، یہ سرکاری ملازمین میں تفریق کیوں،فوج اور عدلیہ کے ملازمین کو پوری گریجوئٹی، مراعات اور پوری پنشن جبکہ باقی محکوں کے ملازمین کے لئے کٹوتیاں گویا ایک ریاست دو دستور ، جو کہ نا منظور ہے کیا عام شہری کی خدمات گھٹیا ، کم تر یا اخلاقی طور پر وہ ایک کم تر شہری ہیں ۔ بلوں کی وجہ سے عوام کو زندہ لاشیں بنا دیا گیا ہے خدا راہ حکمران اپنی روش سے باز آ جائیں اوردور اندیش میرٹ پر مبنی پالیسیاں بنایں اور لوگوں کو اور زیادہ اعساس محرومی کا شکار ہونے سے بچائیں ۔ وہ بزرگ ریٹائرڈ حضرات جنوں نے اس ملک کے لئے کما حقہ خدمات دی ہیں ،ان کو تحفظ کا احساس ہو اور نو جوان ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں بھی کمی آئے اور ہمارا ملک برین ڈرین کا زیادہ شکار نہ ہو۔ یہ اسی وقت ہوگا جب یہاں رہنے والوں کو احساس تحفظ ہو گا ۔ ہنود و غیور پہلے دن سے ہماری ملکی سالمئت کے خلاف ایک ہو چکے ہیں ۔ روزانہ سینکڑوں غزہ ، لبنان ، فلسطین کے لوگوں کی موت یورپ کے ضمیر کو جنجھوڑنے میں ناکام ہے۔ ان کی خوفناک خاموشی ہماری اب بھی آنکھیںنہبں کھول رہی تو کب ہم جاگیں گے۔